کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 289
کے وقت سے لے کر مقیم کے لیے چوبیس (۲۴) گھنٹے اور مسافر لیے بہتّر (۷۲) گھنٹے مسح کرلینے کی رخصت ہے۔ ان حضرات کا استدلال صحیح مسلم اور دیگر کتب والی ان صحیح احادیث کے ظاہری مفہوم سے ہے، جن میں مقیم کو ایک دن اور ایک رات اور مسافر کو تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی گنجایش دی گئی ہے۔ اس گنجایش سے تین دن اور تین راتیں یا ایک دن اور ایک رات کا پوری طرح استفادہ صرف اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ مدتِ مسح کا شمار پہلے مسح سے کیا جائے۔ مثلاً ایک آدمی نے نمازِ ظہر کے لیے وضو کیا اور موزے پہن لیے، نمازِ عشا تک اس کا وضو بحال رہا اور پھر وضو ٹوٹ گیا۔ صبح فجر کے لیے اس نے وضو کیا اور مسح کیا۔ اب اگر مسح کی مدت کا آغاز وضو ٹوٹ جانے سے شمار کیا جائے تو اس طرح اُسے صرف دن دن کے وقت یا دن اور نمازِ عشا تک مسح کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ عشا کے بعد اور تہجّد کے لیے اگر وہ اُٹھے تو اسے مسح کا اختیار نہیں ہوگا، کیوں کہ اس شکل میں عشا کے بعد وضو ٹوٹ جانے سے مسح کا اختیار صرف اسی وقت تک رہ گیا ہے، جب کہ صحیح احادیث اُسے پورا دن اور پوری رات مسح کا اختیار دے رہی ہیں اور یہ صرف اسی شکل میں ممکن ہے، جب مدتِ مسح کا آغاز پہلے مسح سے شمار کیا جائے نہ کہ موزے پہننے یا وضو ٹوٹنے سے کیا جائے۔ اس مسلک کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وَہُوَ المُخْتَارُ الرَّاجِحُ دَلِیْلاً، وَاخْتَارَہٗ ابْنُ المُنْذِرِ، وَحُکِيَ نَحْوَہٗ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ ‘‘[1] ’’دلیل کی رو سے یہی مختار اور راجح مسلک ہے اور امام ابن المنذر نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے، اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے۔‘‘ یہ تو ایک عِلمی بحث اور اس کی تفصیلات تھیں۔ ویسے اگر مطلقاً روزانہ ظہر کے وقت پورا وضو کر لیا جائے تو مقیم کو اس کی گنجایش ہے۔ باقی اوقات میں پاؤں کے موزوں یا جرابوں پر مسح کرتا رہے۔ مسافر تین راتیں اور تین دن کرلے۔ یہ موٹا سا حساب ہے اور جواز کی حدود کے اندر بھی اور اگر باریکیوں کو ہی ا ختیار کرنا ہو تو وہ بھی ہم نے ذکر کر دی ہیں۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔
[1] المجموع شرح المہذّب (۱/ ۵۲۵) طبع قاہرہ