کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 274
اس حدیث کے راوی حضرت جریر رضی اللہ عنہ چونکہ سورۃ المائدہ کی آیتِ وضو نازل ہونے کے بعد اسلام لائے تھے، اس لیے لوگ ان کی اس روایت کو بہت معتبر مانتے تھے، کیوں کہ اس آیت کے ذریعے سے جن صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسح کے منسوخ ہو جانے کا گمان تھا، وہ ان کی روایت سے دُور ہوگیا، کیوں کہ وہ تو مشرّف بہ اسلام ہی آیتِ وضو کے نزول کے بعد ہوئے تھے، جب کہ آیتِ وضو ۵ھ ؁ یا ۴ھ ؁میں غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر نازل ہوئی تھی اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام ماہِ رمضان ۱۰ھ ؁میں واقع ہوا تھا۔[1] ایسے ہی صحیح بخاری، موطا امام مالک اور مسندِ احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان فرماتے ہیں: (( إِنَّہٗ مَسَحَ عَلَی الْخُفَّیْنِ )) [2]’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے عظیم المرتبت والد امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں پوچھا تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’نَعَمْ، إِذَا حَدَّثَکَ شَیْئًا سَعْدٌ عَنِ النَّبِي ﷺ فَلا تَسْأَلْ عَنْہُ غَیْرَہٗ‘‘[3] ’’ہاں! جب تمھیں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز سعد بیان کریں تو پھر اس کے بارے میں کسی دوسرے سے مت پوچھو۔‘‘ صحیح بخاری میں حضرت عمرو بن اُمیّہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (( رَأَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَمْسَحُ عَلَی عَمَامَتِہٖ وَخُفَّیْہِ )) [4] ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دستارِ مبارک اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا ہے۔‘‘ فتح الباری میں لکھا ہے: ’’حفّاظِ حدیث کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ موزوں پرمسح
[1] الفتح الرباني و شرحہ بلوغ الأماني (۲/ ۵۷۔ ۵۸) نیز فتح الباری جلد سات میں بھی سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ [2] صحیح البخاري مع الفتح، رقم الحدیث (۲۰۲) الموطأ مع شرحہ المسوی، رقم الحدیث (۵۸) [3] صحیح البخاري مع الفتح (۱/ ۳۰۵) و الفتح الرباني (۲/ ۵۹) [4] صحیح البخاري مع الفتح (۱/ ۳۰۸)