کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 265
’’بال کٹانے سے اگر غیر مسلموں کی مشابہت مقصود ہو تو حدیث (( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ )) کی بنا پر ناجائز ہے، ورنہ جائز ہے۔‘‘ ’’میرے خیال میں یہ بات بھی درست نہیں۔ وہ اس کی کوئی نئی دلیل بیان نہیں کرسکے، بلکہ بنیاد ازواجِ مطہّرات کے فعل پر ہے، جس کی معقول توجیہات پہلے بیان ہوچکی ہیں۔ نیز حدیث (( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ )) کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ اس کی جھلک فتاویٰ اہلِ حدیث میں موجود ہے: ’’دراصل ہمارے ماحول اور معاشرے میں آج کل جو کچھ نظر آرہا ہے، اسلامی تہذیب و تمدّن کا قطعاً اس سے کوئی تعلّق اور واسطہ نہیں۔ یہ خالصتاً مغربی اور استعماری تہذیب و تقلید کا نتیجہ ہے، جس کی یلغار میں بڑے بڑے بُرج بھی منہدم اور بہتے نظر آرہے ہیں (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ہٰذِہٖ الْفِتَنِ)۔‘‘ [1] پھر عورتوں کا مردوں سے مشابہت پیدا کرنا، بالوںکی تراش و خراش کے علاوہ بھی کئی طرح سے ممکن ہے، جس کی تفصیل کا یہاں اب موقع نہیں کہ یہ خارج از موضوع بات ہو جائے گی۔ مصنوعی بالوں کے جوُڑوں اور وِگوں کی ممانعت کا تذکرہ ہو رہا ہے، جس کے آخر میں عورتوں کے بال منڈوانے اور کٹوانے کی ممانعت کا تذکرہ بھی آگیا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ’’باب وصل الشعر‘‘ کے تحت ا مام بخاری رحمہ اللہ نے پانچ صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم سے جو احادیث سات طُرق سے بیان کی ہیں، ان کی شرح کے آخر میں بطورِ نتیجہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ان احادیث میں بالوں کو جوڑنے اور جڑوانے کو حرام قرار دینے کی رائے رکھنے والوں کے لیے دلیل ہے۔ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اس ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے، یہ ان کا واضح رد ہے، کیوں کہ کِسی کام پر لعنت بھیجا جانا، اس کے حرام ہونے کے قوی دلائل میں سے ہے، بلکہ بعض لوگوں کے نزدیک لعنت بھیجا جانا تو اس فعل کے کبیرہ گناہ ہونے کی علامت ہے۔‘‘ (جیسا کہ علامہ ہیتمی اور شیخ احمد آل بو طامی کی کبیرہ گناہوں پر مشتمل کتب کا تذکرہ ہم بھی
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (جلد: ۴۱، شمارہ: ۳۶) لاہور۔