کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 264
گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔‘‘ ’’قاضی عیاض رحمہ اللہ شارح صحیح مسلم نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تھا اور صاحبِ تفسیر ’’أضواء البیان‘‘ نے امام نووی رحمہ اللہ کی پیروی میں بایں الفاظ کہا ہے: ’’وَہُوَ مُتَعَیِّنٌ وَلاَ یُظَنُّ بِہِنَّ فِعْلُہٗ فِي حَیَاتِہٖ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘[1] ’’اس حکم کے پیشِ نظر ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سادگی اور ترکِ زینت کو ضروری سمجھ کر فعلِ ہذا کا ارتکاب کیا، تاکہ کلّی طور پر نکاح کے دواعی سے قطع و یاس ہوسکے۔ ہر دو صورت میں امام نووی رحمہ اللہ کے قول: ’’وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلَی جَوَازِ تَخْفِیفِ الشّعُورِ لِلنِّسَائِ‘‘ ’’اس میں عورتوں کے بال ہلکے کرنے کی دلیل ہے۔‘‘ کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا استدلال درست نہیں۔ بالخصوص جب انھوں نے خود بھی قاضی عیاض رحمہ اللہ کے موقف کو درست قرار دیا ہے۔ نیز اس میں تغییر لخلق اللہ اور مُثلہ کا شائبہ بھی موجود ہے، جو اس فعل سے مانع ہے۔ واﷲ أعلم۔‘‘ آگے حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی لکھتے ہیں: ’’عام حالات میں اگر عورت کو بال کاٹنے کی اجازت ہوتی تو میرے خیال میں کم ازکم حج کے موقع پر اس کو مونڈنے کا حکم ضرور ہونا چاہیے تھا، تاکہ (( اللّٰہُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِیْنَ )) کی سعادت سے محروم نہ رہتی۔ اس کے برعکس معاملہ یہاں تک محدود ہے کہ ما سوائے چند بالوں کے سر کی تقصیر کی بھی اجازت نہیں تو عام حالات میں بلاوجہ بال کاٹنے کیسے جائز ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔ البتہ کِسی معقول علّت و عذر کی بنا پر یہ فعل جائز ہے، جیسے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیماری کی وجہ سے اپنا سر منڈوایا تھا۔‘‘ {وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ} [الأنعام: ۱۰۶] تفصیلی قِصّہ صحیح ابن حِبان میں گیارھویں نوع اور پانچویں قِسم میں بھی موجود ہے۔ علامہ البانی کتاب ’’حِجَابُ الْمَرْأَۃِ الْمُسْلِمَۃِ‘‘ میں فرماتے ہیں:
[1] أضواء البیان علامہ شنقیطي (۵/ ۵۹۸)