کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 262
محقق مولانا ابو الاشبال صغیر احمد شاغف بہاری (مکہ مکرمہ) کا مکتوب بھی اسی شمارے میں شائع ہوا۔ مولانا موصوف نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے: ’’حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں جو علّت موجود ہے، یعنی بعد وفاتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھوں نے ایسا کیا تو اسی حدیث سے استنباط بدونِ علّت ازروئے فقہ جائز نہیں۔ البتہ اس حدیث سے ان بیوہ عورتوں کے لیے جواز کی دلیل ہے، جو شادی کرنے کی بہ وجہ مجبوری خواہش مند نہ ہوں۔ بہ صورتِ دیگر اس سے جوازِ عام کی صورت میں محض مقلّدانہ اندھا پن ہے کہ جو اگلوں نے لکھ دیا، اگرچہ ان سے اس نص کے سمجھنے میں سہو ہوا ہو، ان کے بعد آنے والے آنکھ بند کرکے اُسی پر فتویٰ صادر کرتے چلے گئے۔ پھر اس حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا پر خیر القرون کی عورتوں یعنی امّہات المومنین کے علاوہ دیگر صحابیات اور تابعیات اور اس کے بعد میں اس پر عمل ہوا یا نہیں؟ کم از کم میری نظر سے تو اس پر عمل کرنے کا ثبوت نہیں گزرا، لہٰذا میری نظر میں یہ فتویٰ قابلِ گرفت و تصحیح ہے، یعنی جواز کی صورت صحیح نہیں۔ رہی یہ بات کہ عدمِ جواز کی بھی کوئی روایت ثابت ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں یہ عملی تواتر از عہدِ صحابیات تا ایں دم کافی ہے۔‘‘ حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی نے اپنے مُفّصل مضمون میں جس کا عنوان ’’عورت معقول عذر کے بغیر سر کے بال نہیں کٹواسکتی‘‘ طویل بالوں سے متعلقہ ابتدائیہ کے بعد لکھا: ’’اسلام میں جہاں تک مرد کے بالوں کا تعلّق ہے، اگرچہ بعض احادیث سے منڈوانے کا جواز مِلتا ہے، لیکن افضل و اولیٰ امر یہ ہے کہ بال رکھے جائیں اور صاف کرانے سے احتراز کیا جائے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کا اسوۂ حسنہ بیان کیا ہے کہ وہ نصف کانوں تک اور ایک روایت کی رُو سے کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے۔ ’’مجمع البحار‘‘ سے اس اختلاف کی وجۂ جمع یہ نقل کی ہے کہ ان دونوں روایتوں میں مذکور لمبائی کو مختلف اوقات پر محمول کیا جائے گا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بال کاٹنے میں تساہل برتتے تو کندھوں تک پہنچ جاتے اور جب کاٹتے تو کان تک ہوتے۔‘‘ آگے حافظ صاحب لکھتے ہیں: