کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 260
سنن ابی داود میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ارشادِ نبوی ہے: (( لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم الرَّجُلَۃَ مِنَ النِّسَائِ )) [1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے مشابہت پیدا کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ اس موضوع کی اور بھی کئی احادیث ہیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک غلط فہمی کی طرف بھی اشارہ کر دیا جائے کہ صحیح مسلم میںحضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں: ’’کَانَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ یَأْخُذْنَ مِنْ رُؤُوسِہِنَّ حَتَّی تَکُوْنَ کَالْوَفْرَۃِ‘‘[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطّہرات رضی اللہ عنہم اپنے سروں کے بال لمبائی سے لے لیتی تھیں، یہاں تک کہ وہ وفرہ کی مانند ہوجاتے۔‘‘ ’’وفرہ‘‘ ایسے بالوں کو کہا جاتا ہے جو کانوں تک ہوں۔ بال اس سے زیادہ لمبے اور کندھوں تک پہنچتے ہوں تو انھیں ’’لِمّہ‘‘ اور اس سے بھی لمبے ہوں تو انھیں ’’جُمّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض علما کے نزدیک اس کے برعکس ’’وفرہ‘‘ وہ بال ہیں، جو سب سے زیادہ لمبے ہوں اور پھر اس کے بعد ’’لِمّہ‘‘ اور پھر جُمّہ جو سب سے چھوٹے ہوں۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور (جلد ۴۱ شمارہ ۳۶ بابت ۶ صفر ۱۴۱۰ھ بہ مطابق ستمبر ۱۹۸۹ء) میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا: ’’ازواجِ مطہّرات کے اس فعل کے بارے میں شارحینِ حدیث نے یہ صراحت کی ہے کہ ان کا یہ فعل نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا ہے اور اس سے ان کا مقصود ترکِ تزیّن تھا، کیونکہ لمبے بال حُسن و زینت میں شمار ہوتے ہیں، جِس سے وہ بچنا چاہتی تھیں۔‘‘ آگے چل کر موصوف لکھتے ہیں: ’’تاہم اس کے ساتھ ساتھ شارحینِ حدیث نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتیں اپنے بال ہلکے کرسکتی یعنی کاٹ سکتی ہیں۔ ’’فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلَی جَوَازِ تَخْفِیفِ الشُّعُوْرِ لِلنِّسَائِ‘‘[3]
[1] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۴۵۵) حجاب المرأۃ المسلمۃ (ص: ۶۸) [2] صحیح مسلم شرح النووي (۴/ ۴) [3] شرح النووي علیٰ صحیح مسلم (۱/ ۱۴۸) فتح الملہم (۱/ ۴۷۲) مختصر صحیح مسلم للمنذري بتحقیق علامہ الباني (ص: ۵۰) السراج الوھاج (۱/ ۱۲۶) إکمال المعلم المعروف شرح الأبي (۱/ ۹۶)