کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 257
فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث جمہور کی دلیل ہے، جو کہتے ہیں کہ بالوں کے ساتھ دوسرے بال یا کوئی اور چیز جوڑنا منع ہے، چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو اور اس کی تائید صحیح مسلم اور مسند احمد میں مذکور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں: ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو ڈانٹا، جس نے بالوں کے ساتھ کِسی بھی دوسری چیز کو جوڑا۔‘‘[1] آگے چل کر انھوں نے امام لیث رحمہ اللہ اور دیگر فقہا سے نقل کیا ہے کہ وہ صرف بالوں کی ممانعت کے قائل ہیں۔ دوسری چیز کی ممانعت کے نہیں، جیسے دھاگا وغیرہ ہے، آگے سنن ابی داود کے حوالے سے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے، جِس میں وہ فرماتے ہیں: ’’اونی یا ریشمی دھاگے جوڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک بتایا ہے اور حضرت سعید رحمہ اللہ کے اس قول کی سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔[2] جب کہ بعض دیگر محدّثین کے نزدیک یہ سند ضعیف ہے۔[3] لہٰذا قابلِ حجت نہیں، ویسے بھی یہ ایک تابعی کا قول ہے، جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث اس کے مخالف ہے، نیز یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ والی صحیحین کی حدیث کے مفہوم اور صحیح مسلم ومسند احمد میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی ’’الزُّوْر‘‘ کی تشریح کے بھی مخالف ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’الزُّوْر‘‘ سے مراد وہ اشیا ہیں، جن سے عورتیں اپنے بالوں کو بڑھاتی ہیں۔[4] اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بالوں کو زیادہ ثابت کرنے کے لیے دوسرے بال جوڑے جائیں یا کبھی کوئی دھاگا وغیرہ، یہ سب ممنوع ہے۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ اگر کوئی بالوں کے ساتھ دوسری کوئی چیز اس طرح جوڑے، جس سے یہ دھوکا ہو کہ سب اصلی بال ہی ہیں تو یہ ممنوع ہے اور اگر اصلی بال اور یہ ساتھ جوڑی جانے والی چیز دونوں الگ نظر آتی ہوں تو پھر یہ جائز ہے۔[5]
[1] صحیح مسلم مترجم اردو (۵/ ۳۳۴) [2] فتح الباري (۱۰/ ۳۷۵) [3] غایۃ المرام (ص: ۸۱) [4] فتح الباري (۱۰/ ۳۷۵) غایۃ المرام (ص: ۷۸) [5] فتح الباري (۱۰/ ۳۷۵)