کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 255
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس طرح قرآن و سنت دونوں کی رُو سے اس فعل کو ممنوع ثابت کر دیا، تو اس عورت نے کہا: ’’ممکن ہے کہ آپ کے گھر کی عورتوں میں سے کوئی ایسا کرتی ہو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اندر جاکر دیکھ لو، وہ عورت ان کے گھر میں داخل ہوئی اور جب دیکھ بھال کر باہر آئی تو کہنے لگی: ’’مجھے ایسی کوئی (قابلِ اعتراض) چیز نظر نہیں آئی۔‘‘ تب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (اگر میرے گھر میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی) تو پھر میں نے ایک بندہ صالح کی وصیت کو کیا اپنایا ہوتا، جنھوں نے فرمایا تھا: ’’میں نہیں چاہتا کہ جس چیز سے میں تمھیں منع کروں، خود اسی میں تمھاری خلاف ورزی کروں۔‘‘[1] ایک عورت اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مابین رونما ہونے والے مکالمے کی شکل کے اس واقعے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بال جوڑنے یا وِگ لگانے کو پہلے قرآنِ کریم، پھر حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممنوع ثابت کیا اور پھر اس کے ممنوع ہونے کا اپنے گھر کی عورتوں سے عملی ثبوت بھی مہیّا فرمایا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ عَنْ اَہْلِ بَیْتِہٖ وَأَرْضَاہُمْ۔ 3۔اس موضوع کی تیسری حدیث صحیح بخاری اور مسندِ احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں مذکور ہے: ’’اللہ بال جوڑنے اور جڑوانے والی عورت پر لعنت کرے۔‘‘ 4۔چوتھی حدیث صحیح بخاری و مسلم، سنن نسائی اور مسندِ احمد میں امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انصار کی ایک لڑکی کی شادی ہوئی، جبکہ کِسی بیماری کی وجہ سے اس کے سر کے بال گرچکے تھے، اس کے گھر والوں نے چاہا کہ (دُلہن بناتے وقت) اس کے سر پر کوئی دوسرے بال جوڑ دیے جائیں۔ (لیکن یہ کام کرنے سے پہلے) انھوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے بال جوڑے اور جڑوانے والی عورت پر لعنت کی ہے۔‘‘
[1] صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۷۱۹) سنن ابن ماجـہ، رقم الحدیث (۱۹۸۹) ولکن عن علقمۃ عن عبداﷲ، صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۱۳)