کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 253
امریکہ و یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی راہنمائی اور وہاں کے غیر مسلم لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے متعارف کروانے کے لیے ایک پروگرام بنایا اور مختلف علما کو مختلف موضوعات پر کتابیں لکھنے پر متعین کیا، جنھیں انگلش ترجمہ کرکے ان ممالک میں پہنچایا جانا طے پایا تو قطر میں مقیم عرب ممالک کے معروف اسکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی کے ذمّے یہ لگایا گیا کہ وہ ’’اسلام میںحلال و حرام‘‘ کے موضوع پرکتاب لکھیں گے۔ چنانچہ ۱۳۸۰ھ = ۱۹۶۰ء میں ’’الحلال و الحرام في الإسلام‘‘ کے نام سے ان کی کتاب شائع ہوئی، جس کے اب تک بیسیوں اڈیشن چھپ چکے ہیں اور دُنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے، حتیٰ کہ الدار السلفیۃ بمبئی نے اسے اردو میں بھی شائع کر دیا ہے۔ اس میں موصوف نے بھی مصنوعی بالوں کے جوڑوں یا وِگوں کو ممنوع اشیا میں شمار کیا ہے۔[1] اس فعل کی حرمت و ممانعت پر یوں تو صرف قرآنِ کریم میں سورۃ النساء (آیت: ۱۱۹) کے الفاظ کی دلالت بھی کافی ہے، جب کہ اس پر مستزاد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث بھی ہیں، جن میں اس فعل کو ناجائز و ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے، بلکہ بعض احادیث میں تو یہاں تک مذکور ہے کہ اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں پر اللہ نے لعنت فرمائی۔ یہ فعل چونکہ عموماً زیادہ تر عورتوں میں پایا جاتا ہے، اس لیے احادیث میں جو صیغے آئے ہیں، وہ مونث ہی کے ہیں، مگر اس فعل کا ارتکاب اگر کوئی مرد کرے تو وہ بھی ان احادیث کا مصداق ہو کر ملعون ہوتا ہے، کیوں کہ مونث کے صیغے محض تغلیباً ہیں، ورنہ حکم سب کے لیے برابر ہے، بلکہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کے بہ قول: ’’مرد کا اس تحریم میں دخول تو بہ درجہ اولیٰ ہے۔‘‘[2] وہ چاہے خود وِگ استعمال کرے یا کِسی دوسرے مرد و زن کے لیے وِگ تیار کرے اور اس کی کنگھی پٹی کرے۔ اس موضوع کی متعدد احادیث کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ 1۔صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
[1] دیکھیں: ’’الحلال و الحرام في الإسلام‘‘ ڈاکٹر یوسف القرضاوی (ص: ۸۸۔ ۹۰) طبع المکتب الإسلامي و مترجم اردو از مولانا شمس پیر زادہ (ص: ۱۲۱۔ ۱۲۳) طبع الدار السلفیۃ بمبئی۔ [2] الحلال و الحرام (ص: ۸۹)