کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 251
اہلِ عرب کے توہمّات میں سے ایک توہم کی طرف اشارہ ہے۔ ان کے ہاں قانون تھا کہ اونٹنی پانچ بچے یا دس بچے جَن لیتی تو اس کے کان پھاڑ کر اُسے اپنے دیوتا کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس سے کوئی کام لینا حرام سمجھتے تھے۔ اسی طرح جس اونٹ کے نطفے سے دس بچّے ہو جاتے، اُسے بھی کسِی دیوتا کے نام پر کان چیر کر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ کان چیرنا اس بات کی علامت تھی کہ یہ کسی دیوتا کے نام پر چھوڑا ہوا جانور ہے، جس کا پھر دوسرے لوگ بھی احترام کیا کرتے تھے۔ یہ در اصل شیطان کی سکھائی ہوئی چال تھی۔ دَورِ جاہلیت کی یہ مشرکانہ رسم تھوڑی سی شکل بدل کر آج بھی برّصغیر میں موجود ہے (البتہ علاقے اور ماحول کی مناسبت سے دیوی اور دیوتاؤں کی جگہ مزاروں نے اور اونٹوں، اونٹنیوں کی جگہ بیلوں اور گائیوں نے لے رکھی ہے)۔ یہاں جو دوسری بات کہی گئی ہے کہ اللہ کی بخشی ہوئی ساخت و بناوٹ میں ردّ و بدل کریں گے، اس کے مفاہیم و مطالب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ کسی نہ کسی طرح اللہ کی بخشی ہوئی ساخت و بناوٹ میں تبدیلی کریں گے۔ ہمارا محلِ استشہاد یہی الفاظ ہیں کہ عورتوں کا مصنوعی بالوں کے جوڑے اور مردو زن سب کا طرح طرح کی وِگوں کا استعمال کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ساخت میں تغیّر و تبدّل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے شیطانی فعل قرار دیا ہے اور شیطانی فعل کو اپنانے والے کے بارے میں اسی آیت (۱۱۹) میں اللہ تعالیٰ نے وعید سُناتے ہوئے فرمایا ہے: