کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 244
عوض مقرر کرنا شریعت کا کام ہے اور شریعت قرآن و سنت کے سوا کسی طرح سے لازم نہیں ہوتی، جبکہ قرآن و سنت کسی میں بھی جبیرے یا پلاسٹر پر اس عضو کو دھونے کے عوض میں مسح کرنے کا حکم نہیں آیا، لہٰذا اس مسح کی مشروعیت ساقط ہوگئی۔ آگے انھوں نے امام شعبی، امام داوٗد اور اُن کے اصحاب سے بھی ایسے ہی اقوال نقل کیے ہیں، جن سے ان کے قول یعنی مسح کی عدمِ مشروعیت کی تائید ہوتی ہے۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی موقوف اثر کہ انھوں نے پٹی پر مسح کیا، کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’وہ ان کا اپنا عمل تھا اور وہ بھی پٹی پر مسح کو واجب قرار دینے کے لیے نہیں تھا، جب کہ ان سے تو صحیح سند کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ وہ غسل و وضو کے دوران میں اپنی آنکھوں کے اندر پانی داخل کیا کرتے تھے، حالانکہ فرض ہونا تو کجا یہ مشروع تک بھی نہیں ہے۔‘‘[1] یعنی جب انہی کا ایک فعل مشروع تک بھی نہیں تو انہی کے ایک دوسرے فعل کو وجوب کا درجہ کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ پلاسٹر یا پٹی پر مسح کے بارے میں جمہور فقہا کا مسلک تو مشروعیت اور وجوب کا ہے، جب کہ امام شعبی، امام داود اور ان کے اصحاب علامہ ابنِ حزم اور ایک قول میں امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اس مسح کی مشروعیت کے بھی قائل نہیں، چہ جائیکہ وجوب کو تسلیم کریں۔ دورِ حاضر کے بعض کبار محدّثین (مثل العلّامۃ الألباني في تمام المنّۃ) نے اسی رائے کو حق قرار دیا ہے، کیوں کہ قرآن و سنت انہی کے حلیف ہیں اور جمہور کا مسلک ضعیف روایات پر مبنی ہے۔ ایک تیسری رائے بھی ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف ہی منسوب ہے کہ جبیرہ پر مسح واجب تو نہیں، البتہ مستحب ہے کہ کرلیا جائے تو اچھا ہے اور نہ کریں تو کوئی حرج نہیں۔ موصوف کی یہ رائے اگرچہ مفتیٰ بہ نہیں، لیکن ساری تفصیل کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی اقرب الیٰ الصواب ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کا یہ قول بھی کسی معمولی کتاب یا رسالے میں نہیں، بلکہ فقہ حنفی کی ایک معتبر اور معروف کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔[2]
[1] المحلی لابن حزم (۱/ ۲/ ۷۴۔ ۷۷) تمام المنۃ (ص: ۱۳۵) [2] المغني لابن قدامۃ (۱/ ۳۵۵) وما بعد الشرح للصغیر (۱/ ۲۰۲) وما بعد طبع علی نفقۃ الشیخ الزائد حاکم الإمارات۔