کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 234
جلدی کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: (( وَیْلٌ لِّلْأَعْقَابِ مِن النَّارِ )) ’’ان ایڑیوں کے لیے نارِ جہنم کا عذاب ہے (جو خشک رہ جائیں)۔‘‘ جب ان نوجوان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو انھوں نے پاؤں کو اچھی طرح مل مل کر دھونا شروع کر دیا۔[1] معروف تابعی اور محدث امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ اَنَّ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِ رَسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم مَسَحَ عَلَی الْقَدَمَیْنِ‘‘[2] ’’اللہ کی قسم! نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا صحابی میرے علم میں نہیں، جو پاؤں ( کو دھونے کے بجائے ان ) پر مسح کرتا ہو۔‘‘ سنن ابو داود، نسائی، ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ میں مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، جس میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے اور آخر میں فرمایا: (( فَمَنْ زَادَ عَلٰی ھٰذَا أَوْ نَقَصَ فَقَدْ سَآئَ وَظَلَمَ )) [3] ’’جس نے اس سے زیادہ یا کم کیا، اس نے برا کیا اور ظلم کیا۔‘‘ اس حدیث کے پیشِ نظر پاؤں پر مسح کرنا، بلاشبہہ دھونے کی نسبت نقص اور کمی کرنا ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی اور ظلم قرار دیا ہے۔ ان احادیث اور اجماعِ صحابہ کے پیشِ نظر اس آیت کی قرا ء ت زبر ہی سے صحیح تر ہے اور پیروں کا دھونا ہی فرض ہے نہ کہ مسح کرنا۔ جب آپ وضو مکمل کرلیں تو اب یہاں تین مسئلے پیش آتے ہیں: 1۔ ان میں سے ایک تو وضو کے سابقہ تمام مسائل کی طرح مرد و زن سب کے لیے یکساں ہے اور وہ ہے: وضو سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہو کر ایک آدھ گھونٹ پانی پینا۔
[1] تفسیر الکشاف (۱؍ ۵۹۷۔ ۵۹۸) [2] مصدر سابق (ص: ۵۵۸) [3] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۲۳) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۳۶) نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۱۶۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۲۲) لیکن اس میں ’’أَوْ نَقَصَ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ’’أَوْ نَقَصَ‘‘ کے الفاظ شاذ ہیں۔ فتح الباری ملاحظہ فرمائیں۔