کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 233
عطف ماننے کے بجائے پاؤں کا عطف سروں پر مانا ہے اور ’’اَرْجُلِکُمْ‘‘ یعنی لام کی زیر سے پڑھا ہے۔ اس طرح معنیٰ یہ بنتا ہے: ’’سروں اور ٹخنوں تک پیروں کا مسح کرو۔‘‘ جب کہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمر بھر کا اسوۂ حسنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعامل شاہد ہیں کہ پاؤں کا مسح نہیں، بلکہ پاؤں کو دھویا ہی جاتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ آیت میں ’’اَرْجُلِکُمْ‘‘ والی قراء ت کے بجائے صحیح تر قراء ت ’’اَرْجُلَکُمْ‘‘ ہی ہے[1] اور پاؤں کا دھونا ہی فرض و واجب ہے۔ اب اگر یہاں مفسرینِ کرام کی تصریحات کا ذکر شروع کردیا جائے تو بات لمبی ہو جائے گی۔ لہٰذا ہم صرف ایک مفسر زمخشری رحمہ اللہ کی ’’تفسیر الکشاف‘‘ (۱/ ۵۹۷ طبع دار المعرفۃ بیروت) سے صرف ایک نکتہ ذکر کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: ’’علما (تفسیر و نحو اور اہلِ لغت) کی ایک جماعت نے لام کی زبر کے ساتھ ’’اَرْجُلَکُمْ‘‘ ہی پڑھا ہے کہ پاؤں دھوئے جانے والے اعضا ہیں۔ اگر تم کہو کہ اس کی زیر والی قراء ت اور مسح کے حکم میں دخول کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ پاؤں اُن اعضا میں سے ہیں، جو دھوئے جا تے ہیں اور انھیں اوپر سے پانی بہا کر دھویا جاتا ہے۔ ان کے دھونے میں پانی میں غیر ضروری اور ممنوع و مذموم فضول خرچی کا امکان تھا، لہٰذا ان کا عطف دھوئے جانے والے اعضا کے بجائے عضوِ مسح (سر) پر کر دیا ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ اس کا بھی مسح ہی کیا جائے، بلکہ اس لیے کہ انھیں دھوتے وقت پانی میں میانہ روی کے وجوب پر تنبیہ کی جا سکے، پھر ساتھ ہی {اِلَی الٰکَعْبَیْنِ} بھی ذکر کر دیا کہ یہ دھونا ٹخنوں تک ہوگا اور یہ غایت مسح کا ظن دور کرنے کے لیے لائی گئی ہے، کیوں کہ مسح کی شریعت میں کوئی غایت و انتہا نہیں آئی اور جہاں اس غایت کا ذکر ہے، وہاں متعلقہ عضو کو دھونے کا ذکر ہے۔‘‘[2] اس نکتے کے بعد علامہ زمخشری نے پاؤں کو دھونے کے بجائے ان کے مسح پر مصر حضرات کے امامِ اول حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ انھوں نے بعض قریشی نوجوانوں کو وضو میں
[1] شرح العقیدۃ الطحاویۃ۔ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں قراء ات ہی صحیح ہیں اور متواتر ہیں۔ [2] الکشاف (۱؍ ۵۹۷) المحلیٰ لابن حزم (۱؍ ۲؍ ۵۸)