کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 232
’’خشک رہ جا نے والی ایڑیوں کے لیے جہنم کی آگ کا عذاب ہے۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث تو اور بھی واضح تر ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: (( إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم رَأَیٰ رَجُلًا لَمْ یَغْسِلْ عَقِبَہٗ، فَقَالَ: وَیْلٌ لِّلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ )) [1] ’’نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، جس نے اپنی ایڑی نہیں دھوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا: ایسی ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘ ایک تیسری حدیث سنن ابن ماجہ اور مسندِ احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: (( رَأَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَوْمًا تَوَضَّؤُوْا، وَلَمْ یَمَسَّ أَعْقَابَھُمُ الْمَائُ فَقَالِ: وَیْلٌ لِّلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ )) [2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ ان کی ایڑیوں کو پانی نہیں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی ایڑیوں کے لیے نارِ جہنم کا عذاب ہے۔‘‘ اس موضوع کی کئی اور احادیث بھی ہیں، مگر ان سے قطع نظر صرف ان مذکورہ تین احادیث ہی کو سامنے رکھا جائے، جن میں صحیح بخاری و مسلم کی احادیث بھی ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایڑیوں سمیت دونوں پاؤں کو دھونا ہی فرض ہے نہ کہ ان پر مسح کرنا۔ اس طرح سورۃ المائدہ (آیت: ۶) میں جہاں وضو کا ذکر ہے اور اس آیت: {یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ} کے بعد ہے: {وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ} جس کا معنیٰ {اَرْجُلَکُمْ} کی لام پر زبر ہونے کی شکل میں یہ بنتا ہے کہ ’’اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھوؤ۔‘‘ جمہور علماے تفسیر کے نزدیک قراء ت یہی ہے، جب کہ بعض نے منہ اور ہاتھوں پر پاؤں کا
[1] صحیح البخاري (۱؍ ۱۷۳) مترجم اردو، صحیح مسلم مع شرح النووي (۳؍ ۱۳۱) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۵۳) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۰۷) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۸) [2] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۵۴) و المنتقیٰ مع النیل (۱؍ ۱؍ ۱۶۹)