کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 228
پہلے حصے کا بھی مسح کیا۔‘‘ امامِ مجتہد قاضی شوکانی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی لیث ابن ابی سلیم ہے، جو ضعیف ہے، پھر انھوں نے کبار محدّثین مثلاً: امام ابن حبان، یحییٰ بن قطان، ابن مہدی، ابن معین اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے اس راوی کے بارے میں اقوالِ جرح نقل کیے ہیں اور تہذیب الاسماء نووی کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ اس راوی کے ضعیف ہونے پر تمام علما کا اتفاق ہے، نیز اس روایت میں جو طلحہ کے دادا ہیں، ان کا صحابی ہونا ہی مختلف فیہ ہے، بلکہ ان کے اہلِ خاندان ان کے صحابی نہ ہونے کے قائل ہیں اور طلحہ کے والد بھی غیر معروف ہیں۔ غرض کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔[1] اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی گردن کے مسح کا ثبوت اس روایت سے نہیں ملتا، بلکہ زیادہ سے زیادہ صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سر کا مسح کر تے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا پیچھے لے جاتے کہ گدی اور گردن تک ہاتھ پہنچ جاتے۔ اس روایت میں الٹے ہاتھوں اور نئے سرے سے مسح کرنے کا تو ذکر ہی نہیں۔ اس سلسلے میں ایک دوسری حدیث بھی مروی ہے، جس سے گردن کے مسح کی دلیل لی جاسکتی ہے۔ وہ روایت سنن ابو داود میں اسی سند سے مذکور ہے، جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں ہے: (( وَمَسَحَ رَأْسَہٗ مِنْ مُقَدَّمِہٖ إِلٰی مُؤَخَّرِہٖ حَتَّیٰ أَخْرَجَ یَدَیْہِ مِنْ تَحْتِ أُذُنَیْہِ )) [2] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح کیا، اس کے شروع سے لے کر اس کے آخری حصے تک، حتیٰ کہ اپنے ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالا۔‘‘ اس کی سند پر بھی وہی جرح ہے، جو پہلی روایت پر گزری ہے۔ لہٰذا اس میں بھی جب تین وجوہات یعنی(۱) لیث ابن ابی سلیم کا ضعف۔ (۲)ابو طلحہ کے والد مصرف کی جہالت۔ (۳)مصرف کے والد کی صحابیت میں اختلاف یکجا ہیں، تو اس روایت کے امام نووی، ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر کے بقول ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہونے میں بھی کوئی شک نہ رہا۔[3]
[1] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۱۶۳) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۳۲) الضعیفۃ للألباني (۱؍ ۹۹) [3] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۱۶۳) و السلسلۃ الضعیفۃ (۱؍ ۹۹)