کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 219
’’امام ابن سیرین رحمہ اللہ وضو کرتے وقت اپنی انگوٹھی کی جگہ کو دھویا کرتے تھے۔‘‘ تاریخِ امام بخاری میں یہی اثر موصولاً بھی مروی ہے اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً یوں مروی ہے: (( إِنَّہٗ کَانَ إِذَا تَوَضَّأَ حَرَّکَ خَاتَمَہٗ )) [1] ’’حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ جب وضو کرتے تو اپنی انگوٹھی کو حرکت دیتے (ہلاتے) تھے۔‘‘ تاریخِ امام بخاری اور مصنف ابن ابی شیبہ والی دونوں سندوں کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔[2] مرفوع مگر ضعیف حدیث سے قطع نظر اس اثر ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وضو کرتے وقت انگوٹھی، کنگن، یا چوڑیوں کو پھیر کر ان کے نیچے کی جگہ کو اچھی طرح تر کر لینا چاہیے، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے نیچے کی جگہ خشک رہ جائے اور اگر کوئی ناخن برابر جگہ بھی اعضاے وضو سے خشک رہ جائے تو وضو نہیں ہوتا اور اگر وضو ہی نہ ہوا تو نماز کیا ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ احتیاطاً مذکورہ چیزوں کو دورانِ وضو ضرور ہلا لینا چاہیے۔ کچھ یہی صورت ناک کی تِیلی یا کوکے یا نتھ کی بھی ہے کہ ان کو بھی حرکت دے کر ان کے نیچے تک پانی پہنچانا ضروری ہوگا، لیکن اگر معمولی حرکت دینے سے پانی کے ان کے نیچے تک پہنچ جانے کی غالب توقّع ہو تو پھر انھیں نکالنے کی ضرورت ہے نہ اس سوراخ میں تِنکے سے پانی داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ فتاوٰی عالمگیری کی جلد اوّل کے ابتدائی صفحات (۷) ہی میں یہ بات مذکور ہے، جو ’’البحر الرائق‘‘ سے منقول ہے۔ البتہ وہاں انگوٹھی کے ساتھ کان کی بالی کو حرکت دینے کا ذکر ہے۔ ناک میں ڈالی جانے والی نَتھ یا تِیلی وغیرہ کا نہیں، حالانکہ یہ چاہیے تھا، کیوں کہ ناک دھونے کی جگہ ہے نہ کہ کان۔ کان پر تو صرف مسح ہی کافی ہے۔[3]
[1] فتح الباري (۱/۲۶۷) [2] حوالہ سابقہ [3] (فتاویٰ عالمگیری: ۱/۷ فرائضِ وضو بحوالہ جدید فقہی مسائل، ص: ۲۰/ ۲۱ از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، طبع حیدر آباد۔ انڈیا )