کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 211
بڑی نفیس بحث کی ہے اور علامہ عینی رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ دونوں صورتوں ہی کو جواز پر محمول کیا جائے، پھر انھوں نے امیر صنعانی کی کتاب ’’سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘ سے ان کا قول نقل کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں: ’’فصل اور وصل کے دونوں طریقے ہی روایات میں وارد ہیں۔ لہٰذا اقرب بات اختیار ہی ہے اور اگرچہ دونوں طریقے ہی سنت ہیں، لیکن وصل کی روایت اکثر اور صحیح تر ہے۔ امام ابن العربی رحمہ اللہ نے ’’عارضۃ الأحوذي شرح جامع الترمذي‘‘ میں وصل والے انداز ہی کو ’’أقویٰ في النظر، و علیہ یدل الظاہر من الأثر‘‘ قرار دیا ہے۔‘‘[1] احادیث میں اس بات کا ثبوت بھی موجود ہے کہ ناک میں پانی چڑھا نے میں مبالغے سے کام لیا جائے، سوائے اس کے کہ کوئی شخص روزہ سے ہو، کیوں کہ روزے دار کو دورانِ وضو ناک میں پانی چڑھاتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ مبادا پانی حلق سے نیچے اتر جائے، کیوں کہ سنن ابی داود و ترمذی، نسائی و ابن ماجہ، مسندِ احمد و شافعی، صحیح ابن حبان و ابن خزیمہ، مستدرکِ حاکم اور سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَبَالِغْ فِي الْإِسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا )) [2] ’’ناک میں پانی چڑھا نے میں مبالغہ کرو، سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو۔‘‘ یاد رہے کہ ناک میں پانی تو دائیں ہاتھ ہی سے چڑھایا جائے گا، لیکن اس کو جھاڑنے اور صاف کرنے کے لیے بائیں ہاتھ سے کام لینا ضروری ہے، جیسا کہ استنجے اور ناک صاف کرنے کے آداب میں سے یہ بات معروف ہے۔ سنن نسائی اور مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: (( وَنَثَرَ بِیَدِہِ الْیُسْریٰ، فَفَعَلَ ھٰذَا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: ھٰذَا طُھُوْرُ نَبِيِّ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم )) [3] ’’انھوں نے بائیں ہاتھ سے ناک کو جھاڑا اور تین مرتبہ ایسا کیا اور پھر فرمایا: اللہ کے
[1] تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۱۲۱۔ ۱۲۶) سبل السلام (۱؍ ۱؍ ۵۴) [2] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۲۹) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۶۳۱) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۸۵) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۰۷) و موارد الظمآن، رقم الحدیث (۱۵۹) مسند أحمد (۴؍ ۳۳) المشکاۃ مع المرعاۃ (۱؍ ۴۷۱۔ ۴۷۲) علامہ مبارکپوریa نے محدّثین کی ایک جماعت سے اس حدیث کی تصحیح نقل کی ہے۔ اسی طرح علامہ البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ تحقیق المشکاۃ (۱؍ ۱۲۸) [3] صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۸۹) المنتقیٰ مع النیل (۱؍ ۱؍ ۱۴۳)