کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 210
ابی داود میں ایک روایت ہے، جسے طلحہ بن مصرف اپنے باپ اور دادا کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا نے کہا: (( رَأَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَفْصِلُ بَیْنَ الْمَضْمَضَۃِ وَالْإِسْتِنْشَاقِ )) [1] ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے دوران میں کلی اور ناک میں پانی چڑھانے میں فصل کیا کرتے تھے ( یعنی دونوں کے لیے الگ الگ چلو پانی لیتے تھے)۔‘‘ مگر اس حدیث کو علامہ ابن قیم اور دیگر محدثینِ کرام رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے، کیوں کہ طلحہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کلی اور ناک کے لیے الگ الگ پا نی لیتے دیکھا، حالانکہ طلحہ کے دادا کا صحابی ہونا ہی ثابت نہیں اور جو شخص صحابی نہ ہو اور یہ کہے کہ میں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے دیکھا ہے تو اس کی بات معتبر نہ ہوئی، نیز طلحہ کے والد بھی غیر معروف اور مجہول ہیں۔ اس کے علاوہ طلحہ والی اس روایت میں ایک راوی ’’لیث بن ابی سلیم‘‘ بھی ہے، جسے محدّثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ان تینوں وجوہات کی بنا پر اس حدیث کو ضعیف اور ناقابلِ حجت قرار دیا گیا ہے۔[2] ایسے ہی صحت و ضعف کے اعتبار سے بعض غیر واضح، غیر صریح بلکہ محتمل روایات سے کلی اور ناک میں پانی چڑھانے کو الگ الگ کرنے پر استدلال کیا گیا ہے۔ اگر بالفرض انھیں بھی قابلِ حجت سمجھ لیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ کلی اور ناک میں پانی چڑھانے میں وصل اور فصل دونوں ہی جائز ہیں، لیکن (مذکورہ تفصیل کے پیشِ نظر) صحیح تو یہی ہے کہ وصل کیا جائے، کیوں کہ فصل کا جو انداز عموماً مروج ہے، وہ ضعیف، غیر واضح اور غیر صریح روایات پر مبنی ہے، جب کہ وصل کا ثبوت صحیح بخاری و مسلم جیسی کتب میں مذکور ہے۔ لہٰذا وصل ہی افضل ہے اور فصل محض ’’گزارہ‘‘ ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ فصل اور وصل کے جواز میں تو کوئی اختلاف نہیں، بلکہ دونوں جائز ہیں، یہ اختلافِ رائے صرف افضلیت میں ہے۔ محدّثِ برصغیر علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں اس موضوع پر
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۳۹) زاد المعاد (۱؍ ۱۹۲۔ ۱۹۳) [2] تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۱۲۶)