کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 205
معلوم ہوتا ہے کہ یہیں اس بات کی وضاحت بھی کر دی جائے کہ اثناے وضو باتیں کرنے کی حیثیت کیا ہے؟ جائز و مباح یا ناجائز و ممنوع؟ اس سلسلے میں ہمارے پاک و ہند کی مساجد میں وضو خانوں کی دیواروں پر عموماً یہ الفاظ لکھے ہوئے دیکھے گئے ہیں کہ وضو کرتے ہو ئے باتیں کرنا منع ہے۔ اگر بات اسی حد تک رہتی تو ممکن تھا کہ اسے احتیاط و اخلاق یا آداب وغیرہ کے عمومی امور سے شمار کر لیا جاتا، مگر وہاں تو ان الفاظ کے آخر میں بین القوسین (حدیث) کا لفظ بھی لکھا ہوتا ہے، جس سے شک گزرتا ہے، بلکہ عام آدمی اس بات کا یقین کر لیتا ہے کہ یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہوگا کہ دورانِ وضو باتیں کرنا منع ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اثناے وضو میں باتیں کرنے کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہ سمجھ لیا جائے کہ اس اثنا میں آپ جو جی میں آئے کہتے جائیں، بلکہ جو جی میں آئے، اس کے کہتے جانے کی تو عام حالات میں بھی شر عاً اجازت نہیں، چہ جاے کہ یہ دورانِ وضو جائز ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے محاسبے کا عمل ایسا جامع اور وسیع ہے کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ لکھا جاتا ہے۔ اگر وہ اچھا ہے تو ثواب اور اگر برا ہے تو عقاب لکھا جاتا ہے، ہاں اگر مباح ہو تو نہ ثواب نہ عقاب۔ چنانچہ اس عملِ محاسبہ کا ثبوت تو خود قرآنِ کریم میں موجود ہے، جیسا کہ سورت ق (آیت: ۱۸) میں ارشاد ِالٰہی ہے: {مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ} ’’کوئی بات اس (انسان) کی زبان پر نہیں آتی، مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔‘‘ سورۃ الانفطار (آیت: ۱۰، ۱۱، ۱۲) میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَاِِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ} ’’حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں۔ عالی قدر (تمھاری باتوں کے) لکھنے والے۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔‘‘ معلوم ہوا کہ کسی کا یہ سمجھ کر زندگی گزارنا کہ اس کی غلطیاں، کوتاہیاں اور گناہ اللہ تعالیٰ کے ریکارڈ میں نہیں آتے ہوں گے، یہ سوچ سراسر حماقت ہے، کیوں کہ ہر شخص کی نیکیاں اور برائیاں لکھنے والے فرشتے اس کے ساتھ ہوتے ہیں، جن کا ذکر سورۃ الانفطار کے علاوہ سورۃ الرعد (آیت: ۱۱) میں