کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 202
2۔ بسم اللہ کے بعد وضو ختم کر لینے تک جو مختلف دعائیں اور اذکار رواج پا چکے ہیں، مثلاً: کلی کرنے کی دعا، ناک میں پانی چڑھانے کی دعا، منہ دھونے کی دعا، دایاں ہاتھ دھونے کی دعا، بایاں ہاتھ دھونے کی دعا، سر کے مسح کی دعا، دایاں پاؤں دھونے کی دعا، بایاں پاؤں دھونے کی دعا؛ یہ سب دعائیں من گھڑت ہیں۔ جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مانگی ہیں نہ اپنی امت کے لوگوں کو مانگنے کا کہا ہے اور نہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی سے ثابت ہیں۔ یہ دعائیں ’’کبیری شرح منیۃ المصلي‘‘ میں مذکور ہیں، ایسے ہی بازار میں ملنے والی نماز کے موضوع کی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں بھی منقول ہوتی ہیں۔ ان میں سے صرف پہلی دو دعائیں چھوڑ کر بقیہ آٹھ دعاؤں کو نقل کرکے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کی تردید کی ہے اور امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب ’’روضۃ الطالبین‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’یہ دعائیں بے اصل ہیں۔‘‘ امام شافعی اور جمہور میں سے کسی نے بھی یہ دعائیں ذکر نہیں کی ہیں۔ پھر امام نووی کی کتاب ’’المجموع شرح المہذّب‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ متقدمین علما و فقہا میں سے کسی نے انھیں ذکر نہیں کیا اور محدثِ شہیر علامہ ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دعاؤں کے بارے میں کو ئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں لکھا ہے: ’’اس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت امالی ابن عساکر، الدعوات للمستغفری اور مسند الفردوس دیلمی میں ہے، مگر اس روایت کے جملہ طُرق ضعیف ہیں۔ امام ابن حبان نے یہی روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ’’الضعفاء‘‘ میں اور مستغفری نے ’’الدعوات‘‘ میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے، مگر ان کی سندیں بھی ضعیف اور واہی قرار دی گئی ہیں۔‘‘[1] ایسے ہی امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی ’’نیل الأوطار‘‘ میں ہر ہر عضو کے دھوتے وقت کی جانے والی دعاؤں کی تردید کی ہے اور متعدد کبار محدثینِ کرام سے تنقیدی تبصرے بھی نقل کیے ہیں۔[2] حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں:
[1] التلخیص الحبیر لابن حجر (۱؍ ۱؍ ۱۰۰) [2] نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۲۰۵)