کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 200
ابن الصلاح اور امام ابن کثیر رحمہم اللہ نے اسے قوی قرار دیا ہے اور حافظ عراقی نے حسن کہا ہے۔ دولابی نے ’’الکنیٰ‘‘ (۱/ ۱۲۰) میں امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس موضوع کی صحیح ترین حدیث یہی ہے۔[1] امام منذری رحمہ اللہ نے مختصر سنن ابی داود میں لکھا ہے کہ اس موضوع کی احادیث میں سے سب سے اچھی سند اسی حدیث کی ہے۔[2] یہی حدیث مسندِ احمد، سنن ابن ماجہ و، دارمی، العلل للترمذی، مسند بزار، سنن دار قطنی، مستدرک حاکم اور سنن بیہقی میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور سنن ترمذی و ابن ماجہ، مسندِ احمد و بزار، مستدرکِ حاکم اور سنن دارقطنی میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں شیخ ابو البرکات المجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ والی حدیث کو اس موضوع کی عمدہ ترین حدیث قرار دیا ہے، جب کہ اسحاق بن راہویہ نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ والی حدیث کو صحیح تر کہا ہے۔ امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ نے بھی اسے ہی ’’أحسن شییٔ في الباب‘‘ قرار دیا ہے۔ مذکورہ تین صحابہ کے علاوہ امام شوکانی رحمہ اللہ کے بقول حضرت عائشہ، سہل بن سعد، ابو سبرۃ، علی اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ مختلف طُرق سے بکثرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس حدیث کے مروی ہونے کی وجہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان روایات کی مجموعی حیثیت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔‘‘ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔‘‘ امام ابن سید الناس کا قول امام شوکانی رحمہ اللہ نے ان کی شرح ترمذی سے نقل کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس موضوع کی حسن درجے والی صریح اور صحیح درجے والی غیر صریح روایات موجود ہیں۔[3] ان تمام روایات کو نقل کرنے کے بعد امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ احادیث تو وضو کے
[1] الإرواء الغلیل (۱؍ ۱۲۲) [2] مختصر السنن مع معالم السنن للخطابي و تہذیب السنن لابن القیم (۱؍ ۸۸) طبع دار المعرفۃ۔ [3] التلخیص الکبیر (۱؍ ۱؍ ۷۲۔ ۷۳) نیل الأوطار (۱؍ ۱؍ ۱۳۴۔ ۱۳۵)