کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 193
’’عام اہلِ علم کے نزدیک اسی بات پر عمل ہے کہ ایک ایک مرتبہ اعضاے وضو کو دھونا کافی ہے اور دو دو مرتبہ افضل اور تین تین مرتبہ دھونا افضل ترین ہے اور اس کے بعد کچھ (جائز) نہیں ہے۔‘‘ سنن ابی داود و ابن ماجہ اور مسندِ احمد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے نے دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ! میں تجھ سے جنت کے دائیں گو شے میں سفید محل کا سوال کرتا ہوں تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے بیٹے! اللہ سے جنت کا سوال اور جہنم سے پناہ کی دعا کرو، کیوں کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: (( إِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِيْ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ قَوْمٌ یَعْتَدُوْنَ فِيْ الطُّھُوْرِ وَالدُّعَائِ )) [1] ’’بے شک اس امت میں ایک ایسی قوم ہوگی، جو دعا اور طہارت میں حدود سے تجاوز کریں گے۔‘‘ وضو میں وسواس کا شکار ہو کر بکثرت پانی بہانا بھی حد سے تجاوز اور ممنوع ہے، بلکہ ایک روایت میں تو وضو کے دوران میں وسوسے میں مبتلا کرنے والے شیطان کا نام ’’ولہان‘‘ بھی ملتا ہے، مگر وہ روایت سخت ضعیف ہے۔[2] ویسے بھی صحیح بخاری اور سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے: (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ، وَیَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ )) [3] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو کرتے اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔‘‘ اگر پانی اس مسنون مقدار میں استعمال کرنا مشکل ہو تو کم از کم اتنا بھی تو نہ بہا یا جائے جو فضول اور اِسراف میں داخل ہو۔ اس مفہوم کی ایک حدیث بھی مروی ہے، مگر وہ ضعیف ہے۔[4] 
[1] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۸۷) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۸۶۴) لیکن سنن ابن ماجہ کی حدیث میں (( یعتدون في الطہور )) کے الفاظ نہیں ہیں۔ مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۳۱) و صححہ الألباني۔ [2] تحقیق مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۳۱) [3] صحیح البخاري مع الفتح (۲۰۱) سنن الترمذي مع تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۱۸۳۔ ۱۸۸) [4] مشکاۃ المصابیح بتحقیق الألباني (۱؍ ۱۳۳) و تحقیق زاد المعاد (۱؍ ۱۹۱)