کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 175
(( إِنِّيْ لَأَرَیٰ صَاحِبَکُمْ یُعَلِّمُکُمْ حَتَّی الْخِرَائَ ۃَ )) [1] ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارا ساتھی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) تمھیں قضاے حاجت تک کے آداب بھی سکھلاتا ہے۔‘‘ اس پر انھوں نے جواب دیا: ہاں! پھر ساتھ ہی اسے وہ آداب بھی بتا دیے۔ اس مشرک نے اگرچہ یہ مذاقاً کہا تھا، مگر یہ بات عقل و فکر اور فہم و دانش کے لیے عبرت کا سامان لیے ہوئے ہے کہ جس دین کی تعلیمات میں اس حد تک ہمہ گیری ہے، اس میں کسی بڑے شعبۂ حیات کو نظر انداز کیسے کیا گیا ہوگا؟ ہاں، اگر کوئی اسلامی تعلیمات کو حاصل کرنے کی توفیق نہ رکھتا ہو اور اپنی اس بے توفیقی پر یہ بھی کہہ دے کہ یہ دین موجودہ دَور کی ضروریات کے حل پیش نہیں کرتا تو پھر یہ اس دین کا قصور نہیں، بلکہ اس کی اپنی عقل کا فتور ہے۔ اُلّو یا چمگاڈر اگر دن دھاڑے آنکھ نہ کھول سکیں تو اس میں سورج کی ضیا باریوں پر کیسے شک کیا جاسکتا ہے؟ فاعتبروا یا أولي الأبصار۔ 
[1] صحیح مسلم مع شرح النووي (۳؍ ۱۵۲) مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۱۹)