کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 170
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِذَا شَرِبَ أَحَدُکُمُ الْمَآئَ فَلَا یَتَنَفَّسْ فِيْ الْإِنَائِ، وَإِذَا أَتَی الْخَلَائَ فَلَا یَمُسُّ ذَکَرَہٗ بِیَمِیْنِہٖ، وَلَا یَتَمَسَّحْ بِیَمِیْنِہٖ )) [1] ’’جب تم میں سے کسی نے کچھ پینا ہو تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء میں داخل ہو تو اپنے دائیں ہاتھ سے شر م گاہ کو چھوئے نہ اس سے اسے پونچھے۔‘‘ سنن ابی داود، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور صحیح ابن عوانہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے آخری الفاظ ہیں: (( وَنَھٰی أَنْ یَّسْتَطِیْبَ الرَّجُلُ بِیَمِیْنِہٖ )) [2] ’’نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ سے طہارت کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ یا زدہم: قضاے حاجت اور استنجا کے آداب میں سے گیارھویں بات یہ ہے کہ استنجا کرنے کے بعد اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر دھوئیں، کیوں کہ سنن ابی داود و دارمی اور انہی سے ملتی جلتی حدیث سنن نسائی میں مروی ہے، جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استنجا کیا: (( ثُمَّ مَسَحَ یَدَہ عَلٰی الْأَرْضِ )) [3] ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر ملا۔‘‘ آج کل باتھ روم اور بیت الخلاء جس انداز کے بنے ہوتے ہیں، ان میں اگر کھردری جگہ ہو تو وہاں ہاتھ مل لیا جائے، بہ صورتِ دیگر صابن سے ہاتھ دھو لیا جائے تو بھی ان شاء اللہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے، اگرچہ زمین پر ہاتھ رگڑنے کی اپنی ہی ایک حیثیت ہے۔
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱۵۳) صحیح مسلم مع شرح النووي (۳؍ ۱۵۹۔ ۱۶۰) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۶) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۴) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۱۰) مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۱۱) [2] صحیح أبي داود، رقم الحدیث (۶) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۹) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۱۲) مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۱۲) [3] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۹) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۵۸) مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۱۶)