کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 161
میں نقل کیا ہے، محدثینِ کرام نے اس روایت کو ناقابلِ حجت قرار دیا ہے۔ [1] مذکورہ بالا دو احادیث (جو حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں) کے مجموعی مفاد سے غسلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مسنون طریقہ سامنے آتا ہے، ظاہر ہے کہ غسل کا سب سے پاکیزہ طریقہ اور باسلیقہ انداز یہی ہو سکتا ہے۔ غسل کی جگہ سے ہٹ کر آخر میں پاؤں دھونے کی وجہ یہ ہوگی کہ غسل کی وہ جگہ پختہ نہ ہوگی اور وہاں پا نی رکتا اور جمع ہو تا ہوگا۔ اس طرح کیے گئے غسل کے بعد دوبارہ و ضو کرنے کی بھی کو ئی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ اسی غسل والے وضو سے نماز وغیرہ پڑھی جاسکتی ہے، بشرطیکہ دورانِ غسل وضو ٹوٹنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئے۔ کیوں کہ سنن اربعہ اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مردی ہے: (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَا یَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ )) [2] ’’نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔ غسلِ حیض و نفاس کے لیے پانی میں بیری کے پتے ڈالنا بھی بخاری و مسلم اور مسند احمد میں ثابت ہے۔ [3] عورتوں کا غسلِ حیض کے لیے چوٹیاں کھو لنا: جیسا کہ پہلے بھی ہم مختصر اً اشارہ کر چکے ہیں کہ عورت کے لیے غسلِ جنابت کے وقت سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں، البتہ حیض و نفاس کے غسل کے لیے اپنی چوٹی کو کھولنا ضروری ہے، جیسا کہ صحیح مسلم، سننِ اربعہ اور مسندِ احمد میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے اس بات کا پتا چلتا ہے۔ [4]
[1] صحیح مسلم مع شرح النووي (۲؍ ۳؍ ۲۳۱۔ ۲۳۲) نیل الأوطار (۱؍ ۱۷۵۔ ۱۷۶) تحفۃ الأحوذي (۱؍ ۱۷۴۔ ۱۷۵) الفتح الرباني (۲؍ ۱۳۷۔ ۱۳۸) السلسلۃ الضعیفۃ للألباني (۲؍ ۳۳) تحقیق مشکاۃ المصابیح للألباني (۱؍ ۱۳۶) [2] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۲۵) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۹۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۷۹) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۲۴۶) صححہ الترمذي و الحاکم و الذہبي و الألباني في مشکاۃ المصابیح (۱؍ ۱۳۹) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے بعد پاؤں دھویا کرتے تھے۔ یعنی پاؤں کے دھونے کو موخر کرنا، یہ صرف حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے۔ [3] الفتح الرباني (۲؍ ۱۶۷) [4] حوالہ سابقہ (۳؍ ۱۳۵)