کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 155
(( کَانَتِ الْمَرْأَۃُ مِنْ نِسَآئِ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم تَقْعُدُ فِیْ النِّفَاسِ أَرْبَعِیْنَ یَوْماً لَا یَأْمُرُہَا النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِقَضَائِ صَلٰوۃِ النِّفَاسِ )) [1] ’’نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم میں سے عورت نفاس کے چالیس دن بیٹھا کرتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نمازیں قضا کر نے کاحکم نہیں فرماتے تھے۔‘‘ جب کہ سنن ترمذی اور المغنی لابن قدامہ میں ہے کہ اگر چالیس دن سے پہلے خونِ نفاس بند ہو جائے تو وہ غسل کرے اور نمازیں روزے وغیرہ شروع کر دے۔ [2] اگر کسی کو چالیس دن سے بھی زیادہ خون جاری رہے اور اتفاق سے وہ ایامِ حیض ہوں تو انھیں حیض شمار کرے اور اگر وہ ایامِ معتاد نہیں تو پھر وہ استحاضہ ہوگا، جو ایک بیماری ہے، جس میں عورت کو خون جاری رہتا ہے۔ اس شکل میں وہ غسل کرے، نمازیں و غیر ہ شروع کردے اور ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے، ایک وضو سے کئی نمازیں نہیں پڑھ سکتی، جیسا کہ بخاری شریف میں مروی ہے کہ فاطمہ بنت ابی جحش رضی اللہ عنہا کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (( تَوَضِّئِی لِکُلِّ صَلَاۃٍ )) [3] ’’ہر نماز کے لیے وضو کرو۔‘‘ یہی جمہور کا مسلک ہے، ان کے نزدیک ایک ہی غسل کافی ہے۔ بعض روایات میں ظہر و عصر کے لیے ایک غسل، مغرب و عشا کے لیے دوسرے اور فجر کے لیے تیسرے غسل کا ذکر ہے۔ مگر امام بیہقی نے اسے ضعیف اور بعض نے منسوح قرار دیا ہے۔ [4] استحاضے کی حالت میں عورت اپنے خاوند کے لیے بھی حلال ہو تی ہے، مگر حیض و نفاس میں نہیں، لیکن اگر کوئی شخص حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھے تو اس گناہ کا کفارہ ادا کرے۔ سنن ابی داود، نسائی اور ابن ماجہ میں (مرفوعاً لیکن صحیح موقوفاً ہے) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں مروی ہے: (( یَتَصَدَّقُ بِدِیْنَارٍ أَوْ بِنِصْفِ دِیْنَارٍ )) [5] ’’وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔‘‘
[1] حسنہ الألباني في الإرواء (۱؍ ۲۲۲) و صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۰۵) [2] سنن الترمذي مع التحفۃ (۱؍ ۴۲۸۔ ۴۳۰) و المغني (۱؍ ۳۰۸) طبع مصر۔ [3] صحیح البخاري مع الفتح (۲۲۸) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۸۷۔ ۲۸۹) سبل السلام (۱؍ ۱۰۳) [4] سبل السلام (۱؍ ۱۰۰۔ ۱۰۳) و نیل الأوطار (۱؍ ۴۲۱۔ ۲۴۲، ۲۶۸ تا ۲۷۶) [5] صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۹۰۰) و رقم الحدیث (۲۳۰۰) و صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۱۷) و صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۲۷۸) صححہ غیر واحد ووافقہم الألباني في الإرواء (۱؍ ۲۱۷۔ ۲۱۸) طبع جامعہ الإمام۔