کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 135
تو بھی درست ہے۔ [1] آج کل اس غرض کے لیے لیکوِڈ وغیرہ استعمال کیے جا سکتے ہیں، کیوں کہ یہ اشیا بھی جراثیم کا ازالہ کرنے والی اورمفیدِ مطلب ہیں۔ کُتّے کے جُھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم نجاست کی وجہ سے ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول اس میں طبّی مصلحت بھی شامل ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زہریلے جانوروں کے زہر سے محفوظ رہنے کے لیے ہر صبح عجوہ کھجوروں کے کھانے میں بھی سات دانوں کے عدد کو ملحوظ رکھا ہے اور شدتِ مرض میں اپنے اوپر سات گھڑوں کا پانی ڈالنے کا فرمایا تھا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طبّی طور پر بھی مفید ہے۔ [2] کُتے کے جُھوٹے کو سات مرتبہ دھونے کا سختی سے حکم اس لیے فرمایا گیا کہ بقول علامہ احمد شاکر: ’’طبِ جدید نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ کتّا اپنے لعاب میں بہت سی مہلک بیماریاں اٹھائے پھرتا ہے، جن سے بچنا ضروری ہے۔‘‘ [3] وزارتِ اوقاف و امورِ اسلامیہ ابو ظہبی سے جو ماہنامہ مجلّہ ’’منار الاسلام‘‘ شائع ہوتا ہے، اس (شمارہ ۷ بابت ماہ رجب ۱۴۰۶ھ) میں ایک ڈاکٹر کا تحقیقی مضمون شائع ہوا تھا، جس میں کُتّے کے لعاب سے پھیلنے والے امراض پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر موصوف نے لکھا تھا: ’’اس مرض کے نتیجے میں انڈیا میں پندرہ ہزار سے زائد آدمی، سری لنکا میں ہر دس لاکھ میں سے تِیس آدمی اور فلپائن میں ہر دس لاکھ میں سے بارہ آدمی سالانہ محض کُتّے کے لعاب سے پھیلنے والے امراض کی وجہ سے لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔‘‘ [4] مذکورہ احادیث کے پیشِ نظر جمہور اہلِ علم کا مسلک تو یہ ہے کہ کتّا نجس اور اس کا جھُوٹا ناپاک ہے، مگر حضرت عکرمہ اور امام مالک رحمہ اللہ ایک روایت میں اسے طاہر قرار دیتے ہیں، جو شکاری اور غیر شکاری کتے کے فرق کی بنا پر ہے، مگر بظاہر احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس نظریے کے خلاف ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے پتا چلتا ہے کہ ان کا رُجحان بھی کُتّے کے جھُوٹے کے پاک
[1] المغني (۱/ ۷۴) [2] فتح الباري (۱/ ۲۷۶) [3] تحقیق المحلی لابن حزم (۱/ ۱۰۹۔ ۱۱۰) [4] ماہنامہ ’’منار الإسلام أبي ظہـبی‘‘ (شمارہ: ۷، بابت: ۵، رجب۱۴۰۶ھـ)