کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 131
میں لکھا ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بِلّی کے منہ ڈالنے سے اس برتن کو ایک مرتبہ دھونے کے الفاظ مُدرج ہیں، نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں، بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہیں، مگر یہ بات امام طحاوی رحمہ اللہ سے مخفی رہ گئی، لہٰذا انھوں نے بِلّی کے جھُوٹے کو مکروہِ تحریمی قرار دے دیا۔ آگے علامہ قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کا وُہ حصّہ کاٹ ہی دیا تھا، جس پر بِلّی سوگئی تھی۔ اس بات کی کوئی اصل نہیں (یعنی یہ بے اصل اور من گھڑت قصّہ ہے) اور رہا معاملہ بلّی کے درندہ ہونے کا تو یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، اس سلسلے میں جو روایت ہے، وہ ضعیف ہے اور بلّی کے نجس نہ ہونے کی صراحت کرنے والی احادیث کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔‘‘ [1] علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ بِلّی کے بارے میں ایک اور حدیث بھی مشہُور ہے، جس میں مروی ہے کہ ’’بِلّی سے محبت رکھنا ایمان کا حِصّہ ہے۔‘‘ اس روایت کو بھی صنعانی اور دیگر جماعتِ محدّثین نے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ [2] یہ دونوں روایتیں بظاہر انتہا پسندوں کی گھڑی ہوئی ہیں۔ ایک نے بلّی سے نفرت میں تشدّد کا رویّہ اپنایا اور کپڑا کاٹنے والی حدیث گھڑ ماری اور دُوسرے نے بِلّی سے محبت میں غلوّ کا رویّہ اختیار کیا، تو اس کی محبت کو جزوِ ایمان بنانے والی حدیث تراش دی، جب کہ نہ یہ صحیح ہے نہ وہ دُرست ہے۔ ہاں اتنا ہے کہ اہلِ علم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بِلّی کو پانی پلانے، صحابی رضی اللہ عنہ کے پانی پلانے اور اس کے جُھوٹے سے وضو کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلّی کو دن رات گھروں میں آنے جانے والے خادموں جیسا قرار دینے والی احادیث و آثار سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بلّی رکھنا، اسے پالنا اور اس کی تربیّت کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ [3]
[1] بحوالہ تحفۃ الأحوذي (۱/ ۳۱۱) [2] تحفۃ الأحوذي (۱/ ۳۱۲) [3] حوالہ سابقہ۔