کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 129
’’یہ بِلّی نجس نہیں ہے، کیوں کہ یہ تو ان( خادم مَردوں اور عورتوں) میں سے ہے، جو ہر وقت تمھارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘ سنن ابی داود و دارقطنی میں اس بات کی تائید دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے، مگر وہ متکلّم فیہ ہیں اور ان سے قطع نظر بھی کرلی جائے تو اس مذکورہ صحیح حدیث ہی سے پتا چل جاتا ہے کہ بِلّی نجس نہیں اور اس کا جُھوٹا بھی ناپاک نہیں، بلکہ طاہر و مطہّر ہے، جس سے غسل اور وضو کرنا جائز ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بِلّی کے جُھوٹے کو ناپاک تو قرار نہیں دیا، البتہ مکروہ کہا ہے، ان کا استدلال مسند احمد اور دارقطنی، مستدرکِ حاکم اور سنن بیہقی کی ایک روایت سے ہے، جس میں بِلّی کو درندہ (( اَلسِّنَّوْرُ سَبُعٌ )) کہا گیا ہے کہ’’ بلّی ایک درندہ ہے۔‘‘ ان کے نزدیک درندے کا جھُوٹا ناپاک ہوتا ہے، مگر بِلّی کے معاملے میں انھوں نے مزید تخفیف کی ہے اور اسے نجس تو نہیں، محض مکروہ کہا ہے، حالاں کہ کسی جانور کا محض درندہ ہونا اس کے جُھوٹے کے ناپاک یامکرُوہ ہونے کو مستلزم نہیں ہوتا، کیوں کہ جو متکلم فیہ احادیث گزری ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ درندے کے جُھوٹے کو پاک قرار دیا گیا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ محدّثینِ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک بِلّی کو درندہ قرار دینے والی روایت متکلم فیہ اور ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ استدلال ہے، حتیٰ کہ خود معروف حنفی محدّث امام زیلعی رحمہ اللہ نے ’’نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ‘‘ میں اس حدیث کے طُرق ذکر کیے ہیں اور جس راوی عیسی بن مسیب پر تمام روایات کا انحصار ہے، اس پر کلام کیا ہے اور دیگر محدّثین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [1] اگر بالفرض اسے صحیح اور قابلِ استدلال بھی مان لیا جائے، تب بھی کبشہ والی مذکورہ حدیث میں بلّی کی تخصیص کر دی گئی ہے کہ اس کا جُھوٹا پاک ہے۔ [2] امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کو ’’حسنٌ صحیحٌ‘‘ کہا اور لکھا ہے کہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین، اکثر ائمہ، امام شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا قول یہی ہے کہ بلی کے جُھوٹے میں کوئی حرج نہیں، اس موضوع کے بارے میں صحیح ترین حدیث یہی
[1] بحوالہ تحفۃ الأحوذي (۱/ ۳۱۰) المنتقی مع النیل (۱/ ۳۵) صحیح الجامع، رقم الحدیث (۲۴۳۷) [2] نیل الأوطار (۱/ ۳۶)