کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 124
’’ہر وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، اس کے طاہر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ سورۃ الاعراف (آیت: ۱۵۷) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ} ’’اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کرتے ہیں اور خبیث و ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں۔‘‘ تھوڑا آگے چل کر وہ لکھتے ہیں: ’’فَکُلُّ حَلاَلٍ ہُوَ طَیِّبٌ، وَالطَّیِّبُ لاَ یَکُوْنُ نَجِساً بَلْ ہُوَ طَاہِرٌ‘‘ [1] ’’ہر حلال چیز پاکیزہ ہے اور پاکیزہ نجس نہیں ہوتی، بلکہ طاہر ہوتی ہے۔‘‘ یہ تو متّفق علیہ اور اجماعی مسئلہ ہے۔ [2] 2۔دیگر جانوروں کا جُھوٹا: دُوسری قِسم کے جانور اور پرندے وہ ہیں، جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا، ان کے بارے میں اہلِ علم کے دو قول ہیں: پہلا قول: پہلا قول یہ ہے کہ (خنزیر اور کُتّے کے جُھوٹے کو چھوڑ کر) خچر، گدھے، جنگلی جانوروں یا درِندوں اور شکاری پرندوں کا جھوٹا بھی پاک ہوتا ہے اور وہ طاہر ہی نہیں بلکہ مطہّر بھی ہے۔ 1۔ اس کی پہلی دلیل مسندِ امام شافعی، سنن دارقطنی اور معرفۃ السنن والآثار بیہقی کی وہ حدیث ہے، جس میں مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پُوچھا گیا: (( أَنَتَوَضَّأُ بِمَا أَفْضَلَتِ الْحُمُرُ؟ ))
[1] المحلی لابنِ حزم (۱/ ۱۲۹) [2] لیکن جلاّلہ کے بارے میں اختلاف ہے اور جلاّلہ اس حلال جانور (مرغی۔ بھیڑ وغیرہ) کو کہا جاتا ہے، جس کی غالب غذا نجاست ہو، اسے بعض نے نجس اور بعض نے طاہر قرار دیا ہے۔ (المغني: ۱/ ۷۰) اور صحیح یہی ہے کہ یہ طاہر ہے۔ البتہ اسے ذبح کرنے سے چند دن پہلے باندھ کر رکھا جائے اور پاکیزہ چارہ، دانا دیا جائے اور یہ بھی تب ہے، جبکہ نجاست خوری سے اس کے گوشت کے بدبودار ہو چکنے کا خدشہ ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر اسے بغیر باندھے رکھ کر ذبح کیا جاسکتا ہے۔