کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 119
6۔کتّے پالنے کا رواج: کفّار نے چھوٹی نسل کے کُتے پالنے کو رواج دیا، انھیں اپنے ساتھ کھلایا پِلایا، چُوما چاٹا، گدّوں پر سلایا اور اُن کا شادی بیاہ بھی کیا۔ [1]مسلمانوں نے بھی آج ثابت کردیا ہے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ حالاں کہ صحیح بخاری ومسلم میں مذکُور ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رُو سے جس گھر میں کُتا اور کسی بھی جاندار کی تصویر لگی ہو، وہاں فرشتۂ رحمت داخل نہیں ہوتا۔ چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( لاَ تَدْخُلُ الْمَلآئِکَۃُ بَیْتاً فِیْہِ کَلْبٌ وَلاَ صُوْرۃٌ )) [2] ’’فرشتے کِسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کتا یا تصویر ہو۔‘‘
[1] لاہور سے شائع ہونے والے سات مارچ ۱۹۸۹ء کے روزنامہ جنگ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’ترقی یافتہ یورپی معاشرہ‘‘ ۲۱ سالہ نوجوان نے اپنی کتیا سے شادی رچا لی۔ جس کا متن من و عن نقل کیا: ’’لاہور (نیوز ڈیسک) یورپ کے ترقی یافتہ معاشرے میں ایک ۲۱ سالہ نوجوان نے اپنی کتیا سے شادی رچا لی، دولہا کا نام ’’مارک شیڈ‘‘ اور دلہن جو اعلیٰ نسل کی کتیا ہے کا نام ’’میکسی‘‘ ہے۔ شادی کے دن مارک سیاہ رنگ کے سوٹ میں ملبوس اونچا ہَیٹ پہنے ہونے تھا، جب کہ اس نے اپنی بیوی (کتیا) کے گلے میں سفید رنگ کی پٹی ڈال رکھی تھی۔ شادی کی تقریب میں ۶۰ مہمانوں نے شرکت کی۔ مارک نے شادی کے بعد کتیا سے کہا کہ بے شک تم کتیا ہو، لیکن میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ مارک جو آرٹس اور ڈیزائن کا طالب علم ہے، اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کی اتنی خدمت کروں گا، جتنی ایک خاوند اپنی اپنی بیوی کی کرتا ہے۔ ایک انگریزی جریدہ کے مطابق شادی کی دوسری تقریب مارک کے گھر کے واقع آکسفورڈ اسپکس میں ہوئی، جس میں مارک کی والدہ دو بہنوں اور ایک بھائی نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ جب کتیا سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مارک کو بحیثیت خاوند قبول کرتی ہے تو ’’میسکی‘‘ نے جواباً اپنا سر زمین پر جھکا لیا۔ جس پر تمام مہمانوں نے خوشی سے ناچنا اور گانا شروع کر دیا۔ اِدھر مارک کے کالج کے پرنسپل نے اپنے ہونہار شاگرد کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ یہ دو نسلوں کے درمیان بہترین رابطہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مارک اپنی دلہن کے ساتھ ہَنی مون منانے کے لیے ایک جزیرے پر چلا گیا ہے، یہ خبر کسی تبصرے یا تجزیے کی محتاج نہیں۔ بس مغرب کی اندھی تقلید کرنے والوں کو غور و فکر سے کام لینا چاہیے۔ (ارشاد) [2] مختصر صحیح البخاري للألباني، رقم الحدیث (۱۳۹۰) صحیح سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۱۹۹) صحیح سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۲۴۸۔ ۲۲۴۹) صحیح سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۹۴۰) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۶۴۹) دیکھیں: تطھیر المجتمعات (ص: ۲۳۴۔ ۲۳۵)