کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 116
حد تو یہ ہے کہ آج ان فتنہ انگیز عادات واطوار اور فیشنوں کا پرچار کرنے والے صرف کفّار ہی نہیں، بلکہ ایسے مسلم نوجوان بھی ہیں جو علم وفن کے حصول کے لییٔ مغربی ممالک کا سفر کرتے ہیں اور آتے ہوئے جہاں ہاتھوں میں علمی ڈگریاں لاتے ہیں، وہیں اپنے ذہنوں میں تقلیدِ مغرب کا میٹھا زہر بھی لیے چلے آتے ہیں۔ سامراجی طاقتوں اور ہمارے ان اپنوں کی مہربانیوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج کہیں کہیں مشرق کی فضاؤں پر بھی مغرب کا دھوکا ہوتا ہے اور مسلم و کافر کا فرق ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ چند مثالیں: بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) کی بد اعمالیوں کی وجہ سے قرآنِ کریم کے بے شمار مقامات پر ان کی مذمّت کی گئی ہے، تاکہ اہلِ اسلام اس سے عبرت حاصل کریں اور ان کی عادات کو اختیار نہ کریں، لیکن قرآنِ کریم کی مخاطب اُمتِ اسلامیہ کے افراد نے یہود ونصاریٰ کی مذمّت سے عبرت پکڑنے کے بجائے انہی کے اطوار وافعال کو اختیار کرلیا ہے اور ان کی اندھی تقلید کیے چلے جارہے ہیں، حتیٰ کہ دینی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی کوئی شعبۂ حیات ایسا نہیں، جس میں ان کفّار کی پَیروی نہ کی جارہی ہو۔ 2۔شرک اور بت پرستی: پچھلی قوموں میں شرک اور بت پرستی پائی جاتی تھی، آج مسلمانوں میںبھی عبادتِ الٰہی کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی کئی اور ’’پرستیوں‘‘ نے قدم جما لیے ہیں۔ ان میں بُت پرستی تھی تو ہمارے یہاں قبر پرستی ہے۔ وہ اپنے اَحبار و رہبان کی عبادت یا پیشوا پرستی میں مبتلا تھے تو ہمارے یہاں اسی کا متبادل پیرپرستی کی شکل میں موجود ہے۔ہمارے احباب نے اپنے پِیروں اور وَلیوں کو ’’خدائی‘‘ اختیارات سونپ رکھے ہیں اور ان کی قبروں کی پرستش کی جاتی ہے۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اپنی قوم کی اس پتلی حالت کے پیشِ نظر اللہ کے حضور دست بہ دُعا ہو کر کہا تھا: عطا کر دے انھیں یا رب بصارت بھی بصیرت بھی مسلماں جاکے لٹتے ہیں سوادِ خانقاہی میں حقیقت یہی ہے کہ کم ازکم عقیدۂ توحید تو ہم خانقاہوں ہی پر جاکے لٹا رہے ہیں۔ نذریں ان