کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 114
قائم کیا ہے، لہٰذا آپ اسی پر چلیں اور ان لوگوں کی خواہشات کی پَیروی نہ کریں جو علم نہیں رکھتے۔‘‘ اس آیت میں {اَلَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ} سے مُراد مشرکین لیے ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہودِ بنی قریظہ و بنی نضیر بھی منقول ہیں۔ [1] علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس آیت کے شانِ نزول میں لکھا ہے: ’’جب کفّارِ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آبائی دین کی طرف لَوٹ آنے کی دعوت دی تو یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ پھر انھوں نے {الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ} کی تفسیر کفّار و مشرکین کی ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے ’’روح المعانی‘‘ میں مذکورہ بالا تفسیر کے ساتھ ہی اس سے مُراد جاہل اور گمراہ لوگ بیان کیے ہیں۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے بھی ان سے حق وباطل کو نہ جاننے والے جاہل لوگ مُراد لیے ہیں۔ [2] اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں ان لوگوں کی عادات واطوار اور ان کے طریقے پر نہ چلنے کی دُعائیں مانگنے کا حکم فرمایا ہے۔ ہم ہر رکعت میں قبلہ رو ہو کر سورۃ الفاتحہ (آیت: ۵، ۶، ۷) میں دُعا کرتے ہیں: {اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ} ’’(اے اللہ!) ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا ،جو معتوب نہیں ہُوئے اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ مفسرینِ کرام نے ان آخری الفاظ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ معتوب ومغضوب سے مُراد قومِ یہود اور ضالّین سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ [3] مستدرک حاکم میں ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ہَدْیُنَا مُخَالِفٌ لِہَدْیِہِمْ ))
[1] تفسیر القرطبي (۸/ ۱۶/ ۱۶۴) [2] زاد المسیر (۷/ ۳۶۰) حاشیہ زاد المسیر (۷/ ۳۶۰) [3] تفسیر ابن کثیر اردو (۱/ ۴۵۔ ۴۶)