کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 112
تو خود اس کا اپنا شمار بھی انہی میں سے ہوگا۔‘‘ اس بات کی مزید وضاحت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری حدیثِ شریف سے ہو جاتی ہے۔ سنن ابو داود میں حضرت سمرہ بن جُندب رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِکَ وَسَکَنَ مَعَہٗ فَإِنَّہٗ مِثْلُہٗ )) [1] ’’جو کوئی (کفّار و) مشرکین کے ساتھ اختلاط یا میل جول رکھے، وہ خود بھی انہی جیسا ہوگا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ رہن سہن رکھنے والا بھی انہی کے حکم اور وعید میں آجاتا ہے۔ یہاں ہم اس بات کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ ہمارے وہ احباب جو نہ اللہ کی خاطر محبت رکھتے ہیں، نہ اس کی خاطر نفرت کرتے ہیں، بلکہ محض چند دنیوی مفادات کے پیشِ نظر اپنی بود وباش، میل جول، کھانا پینا اور رہن سہن غیر مسلموں کے ساتھ رکھتے ہیں، وہ اس حدیثِ رسُول صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لیں اور اپنے کردار کے اس کمزور پہلو کی اصلاح کرلیں، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن جب بنی آدم کو حساب کتاب کے لیے اٹھایا جائے تو ان کا حشر بھی انھیں کے ساتھ ہو۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ یہ امرِ واقع ہے کہ ہمارے بعض مسلمان محض معمولی دنیوی اغراض اور گھٹیا قِسم کے مقاصد کی خاطر بعض غیر مسلم قوموں سے دوستانہ راہ و رسم رکھتے ہیں۔ مثلاً: بعض لوگ انگریزوں سے سلام دعا رکھتے ہیں اور بعض سِکھوں کے ساتھ میل جول اور مراسم پیدا کرلیتے ہیں اور اغراض و مقاصد کی فہرست انتہائی مختصر بلکہ صرف دو حرفی ’’مفت شراب‘‘ ہوتی ہے۔ ایک چیز جو پہلے ہی قرآن و سنت کی رو سے حرام ہے، اس کے حصول کے لیے دوسرے حرام کام کا بھی ارتکاب ہوتا ہے اور پھر یہ سلسلۂ حرام در حرام چل نکلتا ہے۔ ایسے ہی بعض لوگ غیر مسلموں کے ساتھ رہن سہن کے علاوہ مل کر کھانا پینا بھی کرتے ہیں، ایک ہنڈیا اور مشترکہ برتن اور ایک ہی دستر خوان، جو وسعتِ ظرفی نہیں، بلکہ ناشایستگی و بد تہذیبی اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے اور بُرا ہو، ملکی و لسانی اور وطنی ونسلی تعصّب کا جو یہ کام کرواتا ہے کہ اپنے ملک و قوم کے کافرکو تو اپنے ساتھ رکھنا منظور ہے، دوسری قوم وملک کے مسلمان کو بھی روم میٹ
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۷۸۷) السلسلۃ الصحیحۃ (۲۳۳۰) صحیح الجامع (۶۱۸۶)