کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 110
آنچہ می بینی خلافِ آدم اند نیستند آدم در غلافِ آدم اند قرآنِ کریم سورۃ الانعام (آیت: ۱۶۲ اور ۱۶۳) میں اللہ تعالیٰ نے اسی مقصدِ تخلیق کا اقرار انسان سے ان الفاظ میں لیا ہے: {قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ} ’’آپ کہہ دیجیے کہ میری نماز و قربانی اور میری موت و حیات سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت خم کرنے والا مَیں ہوں۔‘‘ جب انسان کی زندگی کا مقصدِ وحید اللہ ربّ العالمین کی اطاعت و عبادت ہے تو دُنیا کے تمام کاروبارِ ریاست و سیاست اور عائلی و منزلی تعلقات بھی سب اُسی کے تابع ٹھہرے اور جو انسان اس بنیادی مقصد کے مخالف ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے والے انسانوں کے سب سے زیادہ دشمن ہیں اور شیطانِ لعین چونکہ اس مقصد کی مخالفت میں سب سے آگے ہے، لہٰذا قرآنِ کریم کی سورۃ الفاطر (آیت: ۶) میں اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے: {اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا} [الفاطر: ۶] ’’درحقیقت شیطان تمھارا دشمن ہے، اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔‘‘ [1] اسی طرح جو لوگ شیطانی و ساوس کے پیرو اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اسے آئے ہوئے احکامِ الٰہی کے مخالف ہیں، ان کے ساتھ دلی ہمدردی اور قلبی دوستی اس شخص کی ہو ہی نہیں سکتی، جس کی زندگی ایک بامقصد زندگی ہے اور جس کی دوستی اور موافقت و مخالفت سب اس مقصد کے تابع ہیں۔ [2]
[1] اور اسی موضوع کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف (آیت: ۲۲) سورت یوسف (آیت: ۵۳) سورت بنی اسرائیل (آیت: ۵۳) اور سورۃ الفرقان (آیت: ۲۹) میں بھی بیان فرمایا ہے۔ [2] اس موضوع کے صرف مرکزی نقطہ ومفہوم کے لیے ہمارا ماخذ ہے: معارف القرآن (۲/ ۵۲۔ ۵۳)