کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 109
بات در اصل یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس دُنیا میں انسان کا وجود عام جانوروں اور جنگل کے شجر وحجر یا گھاس پُھوس کی طرح نہیں کہ پیدا ہوئے، پھلے پھُولے اور پھر ہمیشہ کے لیے نیست و نابود اور ختم ہوگئے، بلکہ انسان کی زندگی اس جہاں میں ایک بامقصد زندگی ہے اور حیاتِ انسانی کے تمام ادوار، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، حتیٰ کہ جینا اور مرَنا سب ایک مقصد کے گِرد گھُومتے ہیں۔ جب تک وہ مقصد کے مطابق ہیں تو یہ سارے کام ہی درست و صحیح ہیں اور اگر یہ امور اس مقصد کے مخالف ہیں تو یہ سب غلط ہیں۔ وہ مقصد کیا ہے؟ قرآن کریم کی سُورۃ الذاریات (آیت: ۵۶) میں اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسانی کے اُس مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنْسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} ’’میں نے جنّوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ ساتھ ہی مزید وضاحت فرما دی: {مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ اِِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ} [الذاریات: ۵۷۔ ۵۸] ’’میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں (اور فرمایا) اللہ ہی تو ہے جو رزّاق، بڑی قوّت والا اور زبردست ہے۔‘‘ انسانی زندگی کے اسی مقصدِ تخلیق کے بارے میںدانائے رُوم نے اپنی مثنوی میںکیا خوب کہا ہے: زندگی از بہرِ ذکر و بندگی ست بے عبادت زندگی شرمندگی ست جو انسان اپنے اس بنیادی مقصدِ حیات کو پورا نہ کر رہا ہو تو اسے انسان کہلوانے کا کیا حق ہے؟ بقول مولانا روم رحمہ اللہ وہ انسان نہیں، بس انسان کا روپ دھارے ہُوئے ہے اور انسانیت کے غلاف میں پایا جاتا ہے۔