کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 104
{اِِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ} ’’اللہ تو تم کو ان لوگوں کی دوستی کرنے سے منع کرتا ہے، جو دین کے بارے میں تم سے لڑے (مذہبی جنگ کی) اور انھوں نے تمھیں گھروں سے باہر نکال دیا اور تمھارے نکالنے پر تمھارے دشمنوں کی مدد کی اور جو لوگ ایسے لوگوں سے دوستی رکھیں، وہ گناہ گار ہیں۔‘‘ اوّل الذکر تعلق (موالات) تو صرف اہلِ ایمان مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، جب کہ یہ ثانی الذکر تعلّق (مواسات) صرف اہلِ حرب کفّار کو چھوڑ کر باقی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ 3۔مدارات: تعلقات کی ان چار قِسموں میں سے تیسرا درجہ مدارات کا ہے، جس کا معنیٰ ہے: ’’باہمی خوش اخلاقی اور دوستانہ راہ و رسم۔‘‘ یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، جب کہ اس کا بنیادی مقصد ان کو دینی اعتبار سے نفع پہنچانا اور اپنے قریب لانا ہو، تاکہ خوش گوار ماحول میں ان تک اسلام کا پیامِ امن پہنچایا جاسکے اور انھیں دینِ حق کی تبلیغ کی جا سکے یا پھر ان میں سے کوئی شخص مہمان بَن کر آجائے تو اس کے ساتھ خندہ روئی اور حسنِ اخلاق سے پیش آنا بھی اسلام کی ہمہ گیر تعلیمات کے منافی نہیں۔ ایسے ہی جہاں وہ غالب اکثریت والے ہوں اور ان کے شَر یا ضرر رسانی کا خدشہ ہو تو وہاں بھی اپنے آپ کو اس خدشے سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ محدود پیمانے پر خاطر و مدارات رکھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ سورت آلِ عمران (آیت: ۲۸) میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں سے دِلی محبت کی پینگیں بڑھانے والوں کو سختی سے منع کیا ہے، جس سے عدمِ موالات مُراد ہے۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا: {اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً} ’’سوائے اس کے کہ تم ان کے شَر سے اور ضَرر سے بچاؤ کے لیے ان کے ساتھ کچھ تعلقات بحال رکھو۔‘‘