کتاب: طہارت کے احکام ومسائل - صفحہ 100
8۔ اٹھائیسویں پارے کی سورۃ الممتحنہ کی پہلی ہی آیت میں اسی موضوع کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: {ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ} [الممتحنۃ: ۱] ’’اے ایمان والو! میرے دشمن اور اپنے دشمن (کفّار) کو دوست مت بناؤ، تم ان سے دوستانہ میل جول رکھتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے پاس آنے والے سچے دین(سچّے کلام قرآن کریم) کو مانتے ہی نہیں ہیں۔‘‘ اس آیت کے پسِ منظر میں بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصّہ ہے، جو کتبِ تفسیر و حدیث میں مذکور ہے۔ صحیحین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے بھیجا کہ (مکہ مدینے کے مابین) روضۂ خاخ تک جاؤ۔ وہاں ایک عورت تمھیں ملے گی، جس کے پاس ایک خط ہے، وہ لے آؤ۔ ہم اس مقام پر پہنچے اور اس عورت سے مطالبہ کیا تو اس نے پس وپیش کیا، مگر بالآخر اس نے خط دے دیا۔ خط نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، جو مشرکینِ مکہ کو نبیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پروگرام سے باخبر کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے جواب طلبی پر بتایا کہ اپنے اہل و عیال (جو مکہ میں تھے) کی خاطر مشرکین کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے میں نے یہ کام کیا تھا۔ ورنہ میں اسلام سے پِھرا ہوں نہ ان کفّار کو دوست سمجھتا ہوں۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک تونے سچ کہا ہے۔‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اُن کی گردن اُڑا دینے کی اجازت مانگی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، یہ بَدری ہے اور بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جو چاہو کرو، تمھیں اللہ تعالیٰ نے معافی دی۔‘‘ اس وقت یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تھی۔ یہ واقعہ صحیحین، سننِ اربعہ (سوائے ابن ماجہ) اور صحیح ابن حبان وغیرہ سب میں موجود ہے۔ [1] 
[1] صحیح البخاري (۷/ ۴۰۰) صحیح مسلم (۴/ ۱۹۴۲) مختصر ابن کثیر للرفاعي (۴/ ۲۱۷۔ ۲۱۸) تفسیر القرطبي (۹/ ۱۸/ ۵۰۔ ۵۱۔ ۵۲) زاد المسیر (۸/ ۳۳۰۔ ۳۳۱۔ ۳۳۲) الدر المنثور للسیوطي (۶/ ۲۰۲)