کتاب: طہارت کے مسائل - صفحہ 9
تھے۔صفائی کاکوئی انتظام نہ تھا۔نہ گندے پانی کو نکالنے کے لئے نالیوں اور بدروؤں کا رواج تھا۔ عوام ایک ہی لباس سالہا سال پہنتے ،جسے دھوتے نہیںتھے ۔نتیجتاًوہ بوسیدہ ، میلا اور بدبودار ہو جاتا، نہانا اتنا بڑا گناہ تھا کہ جب پاپائے روم نے سسلی اور جرمنی کے بادشاہ فریڈرک ثانی (1250ء) پر کفر کا فتوی لگایا ،تو سرفہرست یہ الزام درج تھا کہ وہ ہر روز مسلمانوں کی طرح غسل کرتاہے۔[1] پاپائے روم کے ہاں ہر وہ عیسائی کافر تھا ،جو مسلمانوں کی تہذیب یا ان کی کسی اور بات کو اچھا سمجھتاہو یا ہر روز نہاتا ہو ایسے کافروں کو سزا دینے کے لئے پاپائے روم نے 1476ء میں ایک مذہبی عدالت قائم کی جس نے پہلے سال دو ہزار افراد کو زندہ جلایااور ستر ہزار کو جرمانہ وقید کی سزا دی۔[2] غلیظ اور میلے جسم کی وجہ سے جوؤں کی یہ کثرت تھی کہ جب برطانیہ کالاٹ پادری باہر نکلتا،تو اس کی قبا پر سینکڑوں جوئیں چلتی پھرتی نظر آتیں۔[3] جب سپین میں اسلامی سلطنت کو زوال آیا، تو فلپ روم(1597ء)نے تمام حمام حکما بند کردیئے کیوں کہ ان سے اسلام کی یاد تازہ ہوتی تھی۔اسی بادشاہ نے اشبیلیہ کے گورنر کو محض اس لئے معزول کردیا کہ وہ روزانہ ہاتھ منہ دھوتا ہے۔[4] اگر حال کی تصویر کھینچنی ہو تو ان حضرات سے دریافت کیجئے جو کچھ عرصہ یورپ یا امریکہ میں رہ چکے ہوں یا تاحال رہ رہے ہوں کہ ان اقوام کا رفع حاجت یا میاں بیوی کے باہمی تعلقات کے بارے میں تصور طہارت کیاہے۔واقعہ یہ ہے کہ طہارت کے سارے معاملات میں ناپاکی ،غلاظت،بے حیائی اور ناشائستگی کا یہ عالم ہے کہ زبان بیان نہیں کر سکتی نہ قلم لکھ سکتاہے جسے سنتے ہی انسان کو پورے کے پورے معاشرے اور سوسائٹی سے گھن آنے لگتی ہے ۔آج پورے یورپ اورامریکہ کو خوف ودہشت کے جس دیو نے اپنے آہنی پنجے میں جکڑا ہواہے،وہ ہے (Aids)کی بیماری،جو درحقیقت نتیجہ ہے جانوروں کی طرح غلیظ ، ناپاک اور گندی زندگی بسر کرنے کا۔اپنے آغاز اور نجام سے بے خبر لذات نفس کی پیروی کرنے والے
[1] یورب پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام برق، صفحہ76 [2] یورب پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام برق،صفحہ 90 [3] یورب پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام برق،صفحہ77 [4] یورب پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام برق،صفحہ77