کتاب: طہارت کے مسائل - صفحہ 14
ازخود احساس کریں اور دینی تعلیمات کی روشنی میں بچوں کی رہنمائی کا فرض بگڑے ہوئے معاشرے اور ماحول پر چھوڑنے کی بجائے خود ادا کریں۔نہ تویہ مسائل بتانے میں شرم اور جھجک محسوس کرنی چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیا دار تھے،لیکن اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا،نہ ہی یہ مسائل دریافت کرنے میں شرم یا جھجک محسوس کرنی چاہئے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللّٰه عنھمیا صحابیات رضی اللّٰه عنھن کو ایسے مسائل دریافت کرنے پر کبھی روکا یا ٹوکا نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللّٰه عنہا مدینہ منورہ کی خواتین کی اس بات پر تعریف فرمایاکرتی تھیں کہ انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں ،کہ مسائل دریافت کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتیں۔(بحوالہ مسلم) قارئین کرام!احادیث صحیحہ کی روشنی میں مسائل کی اشاعت سے ہمارے پیش نظر درج ذیل مقاصد ہیں: اولاً : لوگوں میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھنے ،پڑھانے ،سیکھنے ،سیکھانے،سننے اور سنانے کا رواج اسی طرح عام ہو جس طرح صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہم کے زمانہ مبارک میںتھا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کی طرح حدیث پاک کو بھی یاد کرنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔قرآن مجید کی طرح حدیث پاک کی تعلیم کے لئے بھی حلقہ ہائے درس وتدریس قائم کئے جاتے تھے۔حضرت علی رضی اللّٰه عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایاکرتے کہ حدیث کا باہم مذاکرہ کیا کرو اور ایک دوسرے سے(علم حدیث سیکھنے کے لئے) ملاقاتیں کرتے رہا کرو،اگر ایسا نہیں کروگے تو علم حدیث ضائع ہوجائے گا۔ ثانیاً : دینی مسائل کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قبول کرنے کی سوچ اور فکر پیدا ہو،لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر مانوس ہوں کہ دینی مسائل پر بات چیت کے دوران یہ فرق کرنا ضروری سمجھیں کہ یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے یا کسی عالم ،فقیہ یا محدث کی رائے ہے۔امام ابن جریح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے استاد عطاء رحمہ اللہ جب کوئی مسئلہ بیان فرماتے ،تومیں پوچھتا،یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے یا کسی آدمی کے رائے؟اگر حدیث ہوتی تو فرماتے یہ علم یعنی حدیث ہے اور اگر علماء کرام رحمھم اللہ کے استنباطی نتائج سے اس کا تعلق ہوتا تو فرماتے یہ رائے ہے۔ ثالثاً : حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینی حیثیت اور شرعی مقام لوگوں کے ذہنوں میں اس قدر واضح ہوجائے