کتاب: طہارت کے مسائل - صفحہ 10
لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کا یہ تبصرہ کیا ہی خوب ہے۔ { اِنْ ہُمْ اِلاَّ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمَ اَضَلُّ سَبِیْلاً}(44:25) ’’ان لوگوں کی زندگی جانوروں کی طرح ،بلکہ ان سے بھی بدترہے ۔‘‘(سورہ فرقان، آیت نمبر44) حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہنے جو بات مغربی جمہوریت کے بارے میں کہی تھی لفظی تصرف کے ساتھ وہی بات مغربی تصور طہارت پر بھی حرف بحرف صادق آتی ہے۔ تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا تہذیبی نظام چہرہ روشن اندروں چنگیزسے تاریک تر چلتے چلتے ایک نظر اپنے ہمسایہ ملک پر بھی ڈالئے۔جہاں کی اکثریت ہندو مذہب کی پیروکار ہے۔ چند سال قبل ہندوسان کے سابق وزیراعظم مرارجی ڈیسائی (1975ء)کا یہ بیان ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہواتھاکہ میں روزانہ صبح اپنا پیشاب پیتاہوں۔ہندو تہذیب میں گائے کا گوبراور پیشاب دونوں ہی تبرک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ہمارے ایک ہندی مسلمان دوست نے بتایا کہ وہ ایک ایسے ہندو حلوائی کو جانتا ہے جو روزانہ دکان کھولنے کے بعدحصول برکت کے لئے مٹھائیوں پر گائے کا پیشاب چھڑکتاہے۔شاید آپ کو اس بات پر تعجب ہوکہ ہندو تہذیب کی تمام کتابوں میںکہیں بھی طہارت یا پاکیزگی کے مسائل کا ذکرتک نہیں کیاگیا۔گویا ہر آدمی اپنے مزاج اور ذوق کے مطابق چاہے تو انسانوں جیسی زندگی بسر کرے چاہے تو حیوانوں کی سی، اسی طرح سکھ مذہب میں پاکیزگی اور طہارت کے تصور کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو بھی سکھ اپنے سر ،بغل یا زیر ناف بال صاف کروادے یا ختنہ کروالے وہ سکھ مذہب سے ہی خارج ہوجاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طہارت اور پاکیزگی کی جو تعلیم اسلام نے دی ہے وہ ایک عظیم نعمت ہے،کاش کوئی مرد جلیل اپنے مستقبل سے مایوس ، مغرب کی بے خدا مادی تہذیب کو اسلام کے ان اعلیٰ وارفع وابدی احکامات سے روشناس کرانے کا حق ادا کرسکے۔