کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 898
ایک جگہ فرمایا: ’’اگر فقیر کو بکری کے جلے ہوئے کھر کے سوا دینے کو کچھ نہ ہو تو وہی اس کے ہاتھ پر رکھ دو۔‘‘[1] ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسے آدمی کی خبر نہ دوں ، جو سب سے بدتر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا، ہاں بتائیے فرمایا: وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ کچھ نہ دے۔‘‘[2] اور یہی اللہ عزوجل نے آپ کو حکم دیا تھا: ﴿وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْہَرْo﴾ (الضحٰی: ۱۰) ’’اور بہرحال آپ سوالی کو تو نہ جھڑکیں ۔‘‘ کیا عادی مانگنے والے کو جھڑکا جا سکتا ہے؟ سوال : کیا عادی مانگنے والے کو جھڑکا جا سکتا ہے؟ جواب : جی ہاں ! کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو دینا مکروہ سمجھتے تھے۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے چمٹ کر سوال نہ کیا کرو، جو شخص بھی تم میں سے مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو میں اسے کچھ نہ کچھ دے دیتا ہوں ، حالانکہ میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں اس طرح اس چیز میں برکت نہیں رہتی جو میں اسے دیتا ہوں ۔[3] ایسی احادیث سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ غیر مستحق عادی قسم کے اور چمٹ کر سوال کرنے والوں کو جھڑکنے میں کچھ حرج نہیں ۔[4] نعمت کا بیان کرنا سوال : تحدیث نعمت (نعمت کا بیان کرنا) کا کیا حکم ہے؟ جواب : اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم کرتے ہیں : ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحٰی: ۱۱) ’’اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کریں ۔‘‘ حدیث میں آتا ہے جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گزار ہے اور جس نے اسے چھپایا اس نے ناشکری کی۔[5]
[1] ترمذی، ابواب الزکاۃ، باب ماجاء فی حق السائل۔ [2] نسائی، کتاب الزکٰوۃ، باب عمن یسال باللہ ولا یعطی بہ۔ [3] مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النہی عن المسئلۃ۔ [4] تیسیر القرآن: ۴/ ۶۵۹۔ [5] ابوداود: ۴۸۱۴ حسن بشواہد۔