کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 895
’’میں تمہیں زیارت قبور سے روکا کرتا تھا، پر اب ان کی زیارت کو جایا کرو۔ بلا شبہ اس سے دل نرم ہو جاتے ہیں ، آنکھ آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد آتی ہے نیز بری بات منہ سے نہیں نکالنی۔‘‘[1]
دلوں کی نرمی اور آخرت یاد والی علت میں مرد و عورت دونوں یکساں ہیں ۔ البتہ کثرت سے زیارت کرنے والیوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔[2]
نیز ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے ایک اماں عائشہ رضی اللہ عنہا قبرستان سے آئیں ، میں نے پوچھا: اماں جان کدھر سے؟ کہتی ہیں : عبدالرحمن کی قبر پر گئی تھی، میں نے کہا: کیا حضور نے زیارت قبور سے روکا نہیں ہے، کہا: ہاں روکا تھا پھر زیارت قبور کا حکم دے دیا تھا۔ [3]
قبروں کے متعلق حرام
سوال : قبروں کے متعلق کون کون سے کام حرام ہیں ؟
جواب : (۱)جانور ذبح کرنا، چاہے وہ اللہ کی رضا کے لیے ہی ہو ۔
(۲)قبر سے نکلنے والی مٹی کے علاوہ مزید مٹی ڈالنا۔
(۳)انہیں چونا گچ کرنا۔
(۴)ان پر تختیاں لکھ کر لگانا۔
(۵)ان پر عمارت بنانا۔
(۶) ان پر مجاور بن کر بیٹھنا۔
(۷)قبروں کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا۔
(۸) قبروں کے پاس نماز پڑھنا چاہیے منہ ادھر نہ ہی ہو۔
(۹)ان پر مسجدیں بنانا۔
(۱۰)وہاں میلہ لگانا۔
(۱۱) ان کی جانب سفر کر کے جانا۔
(۱۲)ان پر چراغ جلانا۔
(۱۳) میت کی ہڈی توڑنا۔ [4]
[1] حاکم، احکام الجنائز وبدعہا للالبانی: ص ۱۸۰۔
[2] صحیح ابن ماجۃ: ۱۲۸۱۔
[3] حاکم، احکام الجنائز وبدعہا للالبانی: ص ۱۸۱۔
[4] احکام الجنائز: ص ۳۰۳، ومابعدہا۔