کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 878
رکھنی چاہیے کہ نیکیوں کے کام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، اس پر اجماع ہے اور شارع کے الفاظ سے ثابت ہے، صحیح مسلم میں جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کے مرنے پر اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں لیکن تین چیزیں نیک اولاد جو ان کے لیے دعا کرتی رہے یا وہ صدقہ جو اس کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے، یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے۔[1] اس کا یہ مطلب یہ ہے کہ در حقیقت یہ تینوں چیزیں بھی خود میت کی سعی اس کی کوشش اور اس کا عمل ہیں ، یعنی کسی اور کے عمل کا اجر اسے نہیں پہنچ رہا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر انسان کا کھانا وہ ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے حاصل کیا ہو، اس کی اپنی کمائی ہو اور انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی اور اس کی حاصل کردہ چیز ہے۔[2] پس ثابت ہوا کہ نیک اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کرتی ہے وہ اس کا عمل ہے اسی طرح صدقہ جاریہ مثلاً وقف وغیرہ کہ وہ بھی اسی کے عمل کا اثر ہے اور اسی کا کیا ہوا وقف ہے۔ رہا وہ عمل جو اس نے پھیلایا اس کے بعد بھی لوگ اس پر عامل اور کاربند رہے وہ بھی اصل اس کی سعی اور اس کا عمل ہے۔[3] کوئی غیر شخص، مرنے والے کو کسی قسم کا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ سوال : کوئی غیر، مرنے والے کو کسی قسم کا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ جواب : ہاں وہ اس کے حق میں دعا واستغفار کر سکتا ہے، اللہ فرماتے ہی اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے کہتے ہیں : ﴿رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ اے ہمارے رب! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان کی حالت میں ہم سے پہلے پہنچ چکے ہیں ۔‘‘ (الحشر: ۱۰) نیز نجاشی کے لیے آپ نے فرمایا: (اِسْتَغْفِرُوْا لِاَخِیْکُم) ’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو۔‘‘[4] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((لَمْ یَکُنْ عَادَۃُ السَّلَفِ اِذَا صَلَّوا تَطَوُّعًا وَصَامُوا وحَجُّوْا وَقَرَؤُا القراٰن اَنَّہُمْ کانوا یُہْدُوْنَ ثَوَابَہُم اِلٰی الْاَمْوَاتِ اِنَّمَا کَانُوا…)) ’’سلف کی یہ عادت نہ تھی کہ جب وہ نفلی نماز پڑھیں ، روزے رکھیں ، حج کریں اور قراء ت قرآن کریں کہ وہ ان کا ثواب مُردوں کو ہدیہ کرتے ہوں ، بلکہ وہ تو فقط ان کے لیے دعا واستغفار کرتے تھے چنانچہ لوگوں کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ سلف کے راستے سے اعراض کریں
[1] مسلم: ۱۶۳۱۔ [2] ترمذی: ۱۳۵۸۔ [3] تفسیر ابن کثیر: ۵/ ۲۷۳۔ [4] بخاری، کتاب الجنائز۔