کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 877
﴿لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُo﴾ (الانعام:۱۰۳)
﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ﴾ (الشورٰی: ۵۱)
اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل کو ہونے والی بات جانتے تھے اس نے بھی جھوٹ بولا پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:
﴿وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا﴾ (لقمٰن: ۳۴)
اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی سے کچھ چھپا رکھا ہے وہ بھی جھوٹا ہے پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:
﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ﴾ (المآئدۃ: ۶۷)
بلکہ آپ نے جبریل کو اس کی اصل صورت میں دوبار دیکھا تھا۔[1]
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی:
﴿مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo﴾ (النجم: ۱۱)
اور کہا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل (کی آنکھ) سے دیکھا تھا۔[2]
سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے تو آپ نے جواب دیا وہ تو نور ہے میں اسے کہاں سے دیکھ سکتا ہوں ۔[3]
ایصال ثواب کی شرعی حیثیت
سوال : ایصال ثواب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب : امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے متبعین نے اس آیت ﴿وَاَنَّ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعَی﴾ (النجم: ۳۹) ’’انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے‘‘ سے استدلال کیا ہے کہ قرآن خوانی کا ثواب مردوں کو پہنچایا جائے تو نہیں پہنچتا اس لیے کہ نہ تو یہ ان کا عمل ہے نہ کسب یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کا جواز بیان کیا نہ اپنی امت کو اس پر رغبت دلائی نہ انہیں اس پر آمادہ کیا نہ تو کسی صریح فرمان کے ذریعے سے نہ کسی اشارے کنائے سے، ٹھیک اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قرآن پڑھ کر اس کے ثواب کا ہدیہ میت کے لیے بھیجا ہو، اگر یہ نیکی ہوتی اور مطابقِ شرع عمل ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم ہم سے بہت زیادہ نیکیوں میں سبقت کرنے والے تھے، ساتھ ہی یہ بات بھی یاد
[1] بخاری، کتاب التفسیر۔
[2] ترمذی، ابواب التفسیر۔
[3] حوالہ ایضاً، تیسیر القرآن: ۴/ ۳۱۹۔ تفسیر ابن کثیر: ۵/ ۲۶۳۔