کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 855
کا بیٹا بنے گا اور نہ اس کا وارث بلکہ ایسے بچوں کو ان کے اصل والد کے نام سے پکارنا چاہیے، فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (الاحزاب: ۵) ’’انہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف والا ہے۔‘‘ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا کرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا۔[1] منہ بولے بیٹے سے پردے کا حکم سوال : اگر کسی کو بیٹا بنایا تھا اب وہ بالغ ہوگیا ہو تو کیا اب اس سے پردہ ضروری ہے؟ جواب : جی ہاں ! اب اس سے پردہ کرنا ہوگا اور اس کا گھر آنا جانا ناقابل قبول ہوگا، البتہ اگر اس کا گھر آنا ضروری ہو اس کے بغیر چارہ نہ ہو تو مجبوری کی صورت میں گھر والی اسے اپنا دودھ پلا دے تو وہ اس کا رضاعی بیٹا بن جائے گا، جس طرح کہ سہلہ بنت سہیل نے سالم رضی اللہ عنہ کو پلایا تھا۔[2] منہ بولے بیٹے کی منکوحہ سے طلاق کے بعد باپ کا نکاح کرنا سوال : کیا منہ بولے بیٹے کی منکوحہ سے طلاق کے بعد یہ منہ بولا باپ نکاح کر سکتا ہے؟ جواب : ہاں کر سکتا ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔ پیار سے کسی کو بیٹا کہنا سوال : کیا کسی کو پیار سے بیٹا کہا جا سکتا ہے؟ جواب : کوئی کسی کو پیار سے بیٹا یا بیٹی کہہ دے یا کسی کا احترام ملحوظ رکھ کر کسی بزرگ کو باپ یا بزرگ عورت کو ماں کہہ دے یا محض اخلاقاً الفاظ استعمال کیے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ۔[3] ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار بیوی کو دینا سوال : اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دے دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب : آدمی طلاق کا اختیار اپنی بیوی کو سونپ سکتا ہے لیکن اگر وہ اپنے شوہر کو اختیار کر لیتی ہے تو یہ طلاق نہیں ہوگی، البتہ اگر وہ جدائی کو اختیار کر لیتی ہے تو یہ ایک رجعی طلاق واقع ہو جائے گی۔[4]
[1] صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الاحزاب: ۴۷۸۲۔ ومسلم: ۲۴۲۵۔ [2] صحیح مسلم: ۱۴۵۳۔ ابن کثیر: ۴/ ۲۶۵۔ [3] تیسیر القرآن: ۳/ ۵۶۰۔ [4] فتح القدیر: ۴/ ۳۴۲۔