کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 851
بے نماز اور قرآن سوال : بے نماز کا قرآن نے کس حیثیت سے تذکرہ کیا؟ جواب : نماز نہ پڑھنا مشرکوں کا فعل ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo﴾ (الروم: ۳۱) ’’اور نماز قائم کرو مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘ ظالم حکمرانوں کو رحمہ اللہ کہنا اور تارک نماز کو سلام کہنا سوال : کیا ظالم حکمرانوں کو رحمہ اللہ کہنا اور تارک نماز کو سلام کہنا جائز ہے؟ جواب : ان ظالم حکمرانوں کو رحمہ اللہ کہنا جائز ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوئے۔ جو شخص نماز کا انکار کرتے ہوئے اس کو ترک کر دے وہ کافر ہے اور اس پر تمام امت کا اجماع ہے اور جو شخص انکار کی وجہ سے تو نہیں بلکہ محض سستی وکاہلی کی وجہ سے نماز ترک کرتا ہے تو علماء کے صحیح قول کے مطابق وہ بھی کافر ہے لہٰذا اسے سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا جائز نہیں کیونکہ اسے مرتد شمار کیا جائے گا۔[1] وباللہ التوفیق، وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔ عرب علماء کا یہی موقف ہے۔ کیا مُردے سنتے ہیں ؟ سوال : کیا مُردے سنتے ہیں ؟ جواب : نہیں ! ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ (الروم: ۵۲) ’’یقینا آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مردوں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِo﴾ (فاطر: ۲۲) ’’زندے ومردے برابر نہیں ہیں ، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سناتا ہے جبکہ آپ قبر والوں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘
[1] فتویٰ کمیٹی، فتاویٰ برائے خواتین: ص ۱۱۴۔