کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 835
اسی طرح سنن ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا أرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدِہِ الْخَیْرَ عَجَّلَ لَہٗ الْعَقُوْبَۃَ فِی الدُّنْیَا وَإِذَا أَرَادَ بِعَبْدِہِ الشَّرَّ أمَْسَکَ عَْنہُ بِذَنْبِہ حَتَّی یُوافِیَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))[1] ’’جب اللہ اپنے بندے کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فوراً دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے اور جب وہ اپنے بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہ کی سزا کو روک دیتا ہے حتیٰ کہ قیامت کے دن وہ اسے اس کے گناہ کی سزا دے گا۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا شاندار جزا بڑی آزمائش کے ساتھ وابستہ ہے جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے تو ان کو آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے لہٰذا جو شخص اس آزمائش پر راضی رہا تو اس کے لیے رضا وخوشنودی ہے اور جو شخص اس پر ناراض ہوا اس کے لیے ناراضی اور غصہ ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ((لَا یَزَالُ الْبَلَائُ بِالْمُؤْمِنِ حَتَّی یَمْشِیَ عَلَی الْأَرْضِ وَلَیْسَ عَلَیہ خَطِیْئَۃٌ۔))[2] ’’مومن آزمائش میں مبتلا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چل رہا ہوتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کو اس کچی اور ناپختہ کھیتی سے تشبیہ دی ہے جس کو ہوا دائیں بائیں مائل کرتی ہے یعنی مومن کو اپنی زندگی میں کثرت امراض آفات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَشَدُّ النَّاسِ بَلَائً اَ لْأَنْبِیَائُ…))[3] ’’سب سے بڑی آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر جو اُن کی مثل ہوں پھر جو اُن کی مثل ہوں آدمی اپنے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے پھر وہ اگر اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کی آزمائش بھی ہلکی ہوتی ہے۔‘‘ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، تو آپ نے فرمایا: ((إِنْ کُنْتَ صَادِقًا فَأَعِدَّ لِلْبَلَائِ تِجْفَافًا…))[4]
[1] سنن ترمذی: ۲۳۹۶۔ [2] سنن الترمذی: ۲۳۹۹۔ [3] سنن ترمذی: ۲۳۹۸۔ [4] ترمذی: ۲۳۵۰۔