کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 798
دیا جائے گا، نہ اسے خوشبو لگائی جائے گی اور نہ سلا کپڑا پہنایا جائے گا، اگر آدمی ہے تو اس کا سر اور چہرہ بھی نہیں ڈھانپا جائے گا کیونکہ روز قیامت وہ اپنی اسی حالت پر تلبیہ پکارتا اٹھے گا، اس کے باقی ارکان حج بھی پورے نہیں کیے جائیں گے اور اسے اس کے انہی کپڑوں میں کفن دیا جائے گا جس میں وہ فوت ہوا ہے۔
٭ مردہ پیدا ہونے والا بچہ جب وہ چار ماہ کا ہو تو اسے غسل دیا جائے کفن پہنایا جائے اور جنازہ پڑھا جائے۔
٭ جسے جلنے یا اس کی لاش کے پھٹنے وغیرہ کی وجہ سے نہلانا مشکل ہو یا پانی نہ مل رہا ہو اسے کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جب باقی بدن کو حاصل کرنا مشکل ہو تو اس کے بعض اجزاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ پر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔
٭ کفن پہنانے کے بعد ایک میت سے نجاست نکل آئے تو غسل کو دہرایا نہیں جائے گا اس وجہ سے کہ جو اس میں حرج ومشقت پائی جاتی ہے۔
تعزیت کا طریقہ
جس کسی کا کوئی فوت ہوگیا ہے اس کے دفن سے قبل اور بعد اس سے تعزیت کرنا مسنون ہے جس کسی کا کوئی مسلمان عزیز فوت ہوگیا ہو اسے کہا جائے گا:
((اِنَّ لِلّٰہِ مَآ أَخَذَ وَلَہٌ مَا أَعْطَی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّی۔))(متفق علیہ)
’’بلا شبہ اللہ ہی کا تھا جو وہ لے گیا اور اسی کا ہے جو اس نے عطا کیا ہے اور ہر شے کا اس کے ہاں ایک وقت مقرر ہے۔‘‘
فوت شدہ اور پسماندہ کو یوں دعا دی جائے:
((اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأَبِی سَلَمَۃَ وَارْفَعْ دَرَجَتَہٗ فِی الْمَہْدِیِّیْنَ وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہٖ فِی الْغَابِرِینَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَہٗ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ وَافْسَحْ لَہٗ فِی قَبْرِہٖ وَنَوِّرْ لَہٗ فِیہِ۔))[1]
’’اے اللہ ابو فلاں کو بخش دے اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند کر دے اور اس کے پسماندگان میں اس کا درجہ بلند کر دے ہمیں اور اسے اے رب العالمین بخش دے اور اس کے لیے اس کی قبر کشادہ کر دے اور اس کے لیے اس میں روشنی کر دے۔‘‘
٭ ہر جگہ تعزیت کرنا جائز ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ، یہ قبرستان میں ہو سکتی ہے، بازار میں ، عید گاہ، مسجد اور گھر میں ہر جگہ یہ ہو سکتی ہے نیز یہ بات نا درست ہے کہ میت کے ورثہ کسی جگہ یا گھر میں اکٹھے ہوں
[1] اخرجہ مسلم۔