کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 773
’’اپنے رب کے راہ کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دو اور ان سے اچھے طرح مجادلہ کرو۔‘‘
مولانا مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہئیں ایک حکمت دوسری عمدہ نصیحت، حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بیوقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیتِ استعداد اور حالات کو سمجھ کر نیز موقع ومحل دیکھ کر بات کی جائے ہر قسم کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل ودماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں ۔
عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مخاطب کو فقط دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کی جائے برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی ابھارا جائے اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیرخواہی ٹپکتی ہو مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔
آگے اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’بہترین طریقے پر مباحثہ کرو۔‘‘
یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو، اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں ، اس کا مقصود حریف مقابل کو چپ کرا دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو، بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو۔ اعلیٰ درجے کا شریفانہ اخلاق ہو۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں ، مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے، سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے ، تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دور نہ نکل جائے۔[1]
برائی کا بدلہ لینا
سوال : برائی کا بدلہ لینا بہتر ہے یا معاف کر دینا؟
[1] دیکھئے: تفہیم القرآن: ۲/ ۵۸۱۔ ۵۸۲۔